تیز ترین قانون سازی کی نصف سینچری ، وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے تحفظات کا اظہار کر دیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز )شہباز سپیڈ کی جانب سے قانون سازی کی تیز ترین نصف سینچری عبور کرنے پر وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے بھی تحفظات کا اظہار کر دیا ۔
تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے 3 دنوں میں 54 بل منظور کیے گئے ہیں جن میں سے 35نجی یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق ہیں ، نجی یونیورسٹیوں کے قیام کی اتنی بڑی قانون سازی پر وزیر تعلیم رانا تنویر بے بس نظر آئے، گزشتہ روز اختلاف کے بعد ضمنی ایجنڈے کے تحت آج پھر 7 بل قومی اسمبلی سے منظور کرا لیے گئے۔
وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے بھی یونیورسٹیوں کے بل دھڑا دھڑ منظور کئے جانے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کہتے ہیں پہلے یونیورسٹی کی اپروول ہو پھر چارٹر کی منظوری لی جائے،ہمارا موقف ہے کہ جب ان کا چارٹر منظور ہو جاتا ہے تو انہیں لیگل کور مل جاتا ہے،قانون منظور ہونے پر وہ ایچ ای سی کی منظوری کے بغیر بھی یونیورسٹی قائم کر لیتے ہیں،چارٹر ملنے کے بعد یونیورسٹیاں ڈگری جاری کر سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر تعلیم کا مزید کہنا تھا کہ ان یونیورسٹیوں کی ڈگریوں پر پھر اعتراضات اٹھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس این او سی نہیں ہوتا،ان یونیورسٹیوں کی ڈگریاں ایچ ای سی کے پاس تصدیق کے لئے پہنچتی ہیں تو وہ تصدیق نہیں کرتا،اس طرح والدین اور طلبہ پریشان ہوتے ہیں،والدین بہت مشکل سے بچوں کو پڑھاتے ہیں،یہاں میں نے دیکھا ہے کہ چھ چھ ہزار طلبا کے جلوس نکلے ہیں،مجھے بتایا گیا ہےکہ 10 ہزار ایسے طلباء کو ڈگریاں دی گئیں جن کی اب تصدیق نہیں ہو رہی۔
رانا تنویر حسین نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایچ ای سی کہتا ہے کہ یونیورسٹیوں پہلے این او سی اور دیگر منظوریوں کا معاملہ حل کریں،مجھے پتہ ہے کہ طلبہ سے مجھے کتنی گالیاں پڑتی ہیں اور وہ مجھے کتنی باتیں سناتے ہیں،کل ان یونیورسٹیوں کے طلبہ کی ڈگریوں کا بھی مسئلہ بنے گا۔
قومی اسمبلی یونیورسٹیوں کے بل پاس کر رہی ہے مگر سینٹ اس کی منظوری نہیں دے رہا،ایوان بالا کا موقف ہے کہ پہلے ضروری منظوریاں حاصل کی جائیں،یونیورسٹی ہونی چاہیے مگر تعلیمی اداروں میں کوالٹی کی تعلیم ہونی چاہیے،معیاری تعلیم تب ہی ہو سکتی ہے جب یہ یونیورسٹیاں تمام ضروری لوازمات پوری کریں،ایسا نہ ہو کہ ایک کمرے میں یونیورسٹی بن جائے اور طلبا مشکلات کا شکار ہوں،مناسب ہے کہ بل اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجے جائیں جہاں وہ ایچ ای سی سے فارملٹی پوری کر لیں،سب جگہ یہ بات ہو رہی ہے کہ قومی اسمبلی نے چار دن میں 54 بل پاس کر لئے ہیں۔