(24 نیوز) قومی احتساب بیورو نے چودھری برادران اور لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کے اثاثوں کی تفصیل لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروا دی۔
لاہور ہائیکورٹ میں چیئرمین نیب کے اختیارات کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ڈی جی نیب شہزاد سلیم رپورٹ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔ نیب رپورٹ میں کہا گیا کہ 1985 میں چودھری پرویزالٰہی کی پاس 100 روپے بھی نہیں تھے، چودھری پرویزالٰہی نے سیاست کا آغاز ساڑھے 7 لاکھ روپے کے قرض سے کیا، وہ اب ساڑھے 6 ارب کے مالک ہیں، چودھری شجاعت اس وقت اڑھائی ارب کے اثاثوں کے مالک ہیں۔عدالت نے کہا ڈی جی نیب آج بھی مکمل تیاری کیساتھ پیش نہیں ہوئے۔ جسٹس شہرام سرور نے کہا لگتا ہے 17 سال سے انکوائری سرد خانے میں پڑی رہی۔ جسٹس صداقت علی نے کہا ایسا لگتا ہے یہ رپورٹ ڈی جی نے خود تیار نہیں کی، معلوم ہو رہا ہے ڈی جی نیب کسی کی تیار کی ہوئی رپورٹ پڑھ رہے ہیں، آپ نے ریفرنس بند کرنے کی تاریخ غلط بتائی ہے۔درخواست گزار چودھری برادران نے موقف اپنایا کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کرنے والا ادارہ ہے، نیب نے 20 سال قبل مکمل تحقیقات کیں، مگر ناکام ہوا۔ چیئرمین نیب کو بند کی جانیوالی انکوائری دوبارہ کھولنے کا اختیار نہیں، ہمارا سیاسی خاندان ہے، انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
مزید یہ کہ نیب رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف تین مختلف شکایات موصول ہوئی، 3 دسمبر 2019 کو آمدن سے زائد اثاثوں کے خلاف انکوائری شروع کی گئی، انکوائری میں رانا ثناء اور ان کے گھرانے کی 24 پراپرٹیز سامنے آئیں، جائیدادوں میں پلازے، کمپنیاں، گھر، فارم ہاؤسز اور زرعی زمین شامل ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ رانا ثناء اللہ کی جائیدادیں لاہور، فیصل آباد میں واقع ہیں، لیگی رہنما کی ایک پرائیویٹ لیمیٹڈ کمپنی آر ایس کے بھی ہے، رانا ثناء اللہ کے اثاثوں کی کل مالیت اربوں میں ہے، انکوائری میں پتہ چلا کہ رانا ثناء اللہ اور ان کے خاندان نے اثاثوں کی اصل مالیت ظاہر نہیں کی، رانا ثناء اللہ نے 2015،16 اور 2017 میں مختلف سوسائیٹیوں میں کروڑوں کی سرمایہ کاری کی، لیگی رہنما نے اپنے اثاثوں کی جو مالیت ظاہر کی وہ مارکیٹ ویلیو سے کافی کم ہے، رانا ثنا اللہ کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔