پاکستان میں آرمی چیف کی چینج آف کمانڈ کا معاملہ خوش اسلوبی ہی نہیں بلکہ میرٹ اور اطمینان کے ساتھ مکمل ہوا، پاک آرمی کی کمانڈ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے جنرل سید حافظ عاصم منیر کے ہاتھ میں چلی گئی اور نئے جنرل سے کیا توقعات ہیں اور جانے والے سے کیا شکوے ہیں، یہ میرے آج کے بلاگ کا موضوع ہے ۔
میں بہت دنوں سے اس پر لکھنا چاہتا تھا لیکن جب بھی لکھنے کی کوشش کرتا تو دل میں ایک خیال آتا کہ آرمی چیف کو آئے تو ابھی اتنے دن نہیں ہوئے کہ اُن سے بڑی بڑی توقعات لگائی جاسکیں اس لیے کچھ نہ لکھا۔ آج جب میں صحافی اور وی لاگر خود ساختہ جلاوطن احمد نورانی صاحب کا وی لاگ سُنا تو مجھے مجبوراً اس موضوع پر بھی لکھنا پڑا جسے میں ابھی کچھ روز کے لیے ٹالنا چاہتا تھا۔
اس سے پہلے کہ میں جنرل حافظ عاصم منیر سے توقعات کے حوالے سے لکھوں مجھے وڈے حاجی صاحب (قمر جاوید باجوہ) کے بارے میں بھی کچھ لکھنا ہے جو صرف چند روز پہلے تک ہمارے سپاہ سالار تھے۔ ہم خوش تھے کی یوم شہداء پر سابق آرمی چیف نے پاکستان آرمی کے غیرسیاسی ہونے کا بتایا اور اسے مشترکہ فیصلہ قرار دیا یہ واقعی صبح نو کی اُمید تھی۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ اعلان ہوا۔ نہیں تو اس سے پہلے تو جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے خود کو سیاست سے الگ رہنے کا اعلان تو کیا لیکن مارشل لاء بھی لگائے۔
30 سال تک عوام نے پاکستان کے ملٹری راج کو براہ راست اور اس کے درمیان جمہوری ادوار میں اپنے من پسند کرداروں کے ذریعے کسی نہ کسی حوالے سے آرمی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور رہا، اس لیے جنرل( ر) قمر باجوہ کے اعلان کو تمام مکتبہ فکر نے سراہا ۔
لیکن یہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے سپوت نے اُن کے اس بیانیے کو ہوا میں اڑا دیا اور ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ انہیں پی ٹی آئی اور عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا ہمیں تو یہ ایک سیاسی سٹنٹ سے زیادہ نہیں لگتا کہ یہ بیان اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد آیا۔
مونس الہٰی کے اس بیان سے جہاں قمر جاوید باجوہ صاحب کے غیرسیاسی ہونے کے بیان کی نفی ہوئی وہیں جمہوری حلقوں میں بھی مایوسی پھیلی۔ یہ بیان سچ ہے تو جنرل قمر جاوید باجوہ سابق چیف آف آرمی سٹاف ہمیں مایوسی ہوئی ہے اور اگر یہ جھوٹ ہے تو مونس الہیٰ صاحب کو اس کے ثبوت دینا ہوں گے وہ یوں ایک غیر سیاسی شخصیت کو اپنی اور سیاست دانوں کی سیاسی ساکھ کو خراب کرنے کیلئے استعمال نہیں کرسکتے۔ بہت سے وی لاگرز اور صحافیوں نے اس بیان کے بعد جس طرح خبروں کو گھمایا پھرایا اُس سے عوام میں مایوسی پھیلی ہے یہ پاکستان میں جمہوری قدروں کی نفی کے مشابہہ ہوں گی۔
نئے آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر نے بھی قوم کے ایک سیاسی حلقے کو بہت زیادہ مایوس کیا ہے۔ یہ وہ حلقے ہیں جن کے کھانے پلانے، زندہ رہنے اور سیاست کرنے کا دارومدار ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑے رہنے اور انہیں سیاسی کردار ادا کرنے پر مجبور کرنے میں ہے، سیاست کے میدان میں جی ایچ کیو کے بیک گیٹ سے داخل ہونے والے ان سیاستدانوں میں کچھ تو لمبےعرصے سے اپنی توبہ ریکارڈ کراچکے ہیں لیکن کچھ ابھی بھی اپنی آس و امید کے چراغ جلانے کے لیے اسی گیٹ سے پھر تیل ملنے کے بھکاری ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف جناب عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ بمعہ اہل و عیال اور شیخ رشید جیسے چند سیاسی تنہائی کے شکار آج بھی اس گھر کے باہر صدا لگا رہے ہیں ’’دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ بوٹا لائے گا‘‘۔
ان مانگنے والوں کا تو مانگنا ہی ہے لیکن ذرائع کے مطابق ابھی تک ان کرداروں کے لیے دروازہ تو دور کوئی کھڑکی بھی نہیں کُھلی جس کے باعث وہ بہکے بہکے اور سہمے سہمے سے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے تو کبھی نظام کو ہی خراب قرار دیتے ہیں اور کبھی اس نظام کو گرانے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ سب مایوسیوں کی گہری دلدل میں گرتے چلے جا رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ اپنی ضد چھوڑ دیں گے یہ لگے رہیں گے کوشش کرتے رہیں گے۔
اب یہاں ہمیں مایوسیوں کے ماضی سے امید کی کرن جنرل سید حافظ عاصم منیر نظر آتے ہیں۔ امید واثق ہے کہ وہ جمہوریت دشمنوں کی نہیں جمہور کی آواز کو سنیں گے وہ اپنے فیصلے ماضی کیطرح ٹی وی سکرینوں، یوٹیوبرز اور ٹوئٹر ٹرینڈز سے نہیں حقیقی جمہوریت سے اخذ کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جمہوری قوتوں کو سیاست کے میدان میں اور عدلیہ کو کورٹ روم میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے دیں گے۔ فوج مخالف بیانیے کو کرش کرنے کے ساتھ عوام کے حقوق کے تحفظ کی آواز اٹھانے والوں کو تحفظ فراہم کریں گے، ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی کا راج قائم کریں گے اور عوام دشمن سیاستدانوں کی بات نہیں سُنیں گے۔
میری اطلاعات کے مطابق وہ پرویز الہیٰ جیسے کرداروں کو ہمیشہ کے لیے افواج پاکستان سے دور رکھنے کی تیاری کرچکے ہیں، جناب جنرل حافظ عاصم منیر صاحب ہماری امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دیں گے ہمیں اس پر پختہ یقین ہے۔
اب آئیے احمد نورانی کے وی لاگ کی جانب جس میں انہوں نے اپنے شکوے کا اظہار کیا ہے تو جناب آپ صحافی ہیں اور پرانے صحافی ہیں آپ کو تو امیدوں کے ٹوٹنے کا یوں اعلان نہیں کرنا چاہیئے۔ نئے چیف آف آرمی اسٹاف کو تو ابھی اپنا عہدہ حاصل کیے چند دن گزرے ہیں۔
75 سال کی روایات اور مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے میں تو کچھ وقت درکار ہوگا۔ آپ بیرون ملک بیٹھ کر آج بھی اُس دن کے انتظار میں ہیں کہ جب کوئی الہٰ دین کا چراغ رگڑا جائے جن برآمد ہو اور آپ کو اڑن کھٹولے پہ بٹھا کر پریوں کے دیس میں چھوڑ آئے، یہ وقت آرمی چیف کو مضبوط کرنے کا ہے ناکہ انہیں تنازعات میں الجھانے کا، ہمیں اُن سے اچھے کی امید ہے اور ہم ان امیدوں کی کامیابی کے لیے دعا گو بھی ہیں۔