پاکستان کا پانچواں بڑا شہرراولپنڈی: کچرے کیلئے نہ کوئی لینڈ فل نہ ری سائیکل پلانٹ
شکیلہ جلیل | ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کیلئے باقاعدہ کوئی پلاننگ نہ ہونے سے ماحول میں تعفن بڑھتا جا رہا،کھلے آسمان تلے رکھے کوڑا کرکٹ سے نکلنے والی میتھین گیس انسانی زندگی کیلئے زہر قاتل ، 70فیصد اوپن سیوریج ہے جبکہ صرف 30فیصد سیوریج زیر زمین ہے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
اسلام آباد سے راولپنڈی آتے ہوئے فیض آباد کراس کرتے ہی ایک ناگوار سی ’بو ‘نے جیسے طبیعت بوجھل سی کردی ،جوں جوں مری روڈ پر سفر کرتے ہوئے وارث خان اور کمیٹی چوک کراس کیا تو لگا جیسے سانس لینا ہی دوبھر ہو جا ئے گا ،چونکہ میری اگلی منزل لیاقت باغ تھی تو لیاقت باغ پہنچتے ہی یوں لگا جیسے کہ میں کسی گٹر پر کھڑی ہوں ،فضا میں تعفن کا احساس اور عجیب ناگوار سی بو تھی ۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ بدبو شاید اتنی زیادہ نہیں ہو تی تھی کہ لوگ اس کا نوٹس لیتے لیکن اب یہ مخصوص سی بوجیسے راولپنڈی کی فضا میں رچ بس گئی ہے اور راولپنڈی کی عوام اس بدبودار فضا کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،راولپنڈی کی فضا کو بدبور بنانے میں کوئی ایک عنصر شامل نہیں بلکہ بہت سے عوامل ذمہ دار ہیں ۔راولپنڈی میں 70فیصد اوپن سیوریج ہے جبکہ صرف 30فیصد سیوریج زیر زمین ہے ،یہ سیوریج و فضلہ نالیوں سے ہوتا ہوا نالوں میں گرتا ہے ،بہت ساری جگہوں پر سیوریج کی لائنیں اور صا ف پانی کی لائنیں کے جوڑ ٹوتے ہو نے سے سیوریج کا پانی صاف پانی کو آلودہ کرنے کا باعث بن رہا ہے ،اسی طرح یہ سیوریج کا پانی رس رس کر زیرزمین پانی کے زخائر کوبھی خراب کرنے کا باعث بن رہاہے ۔دوسری طرف راولپنڈی شہر سے گزرنے والہ نالہ لئی کے کنارے کچرے کے ڈھیر لگ چکے ہیں،جن سے نکلنے والی گیسیں انسانی زندگی کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔راولپنڈی میں آلودگی کا باعث بننے والے وجوہات میں یہ صرف ایک وجہ ہے اس کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں ٹریفک جام اور گاڑیوں کا دھواں بھی فضا کو آلودہ کرنے کا باعث ہے راولپنڈی شہر میں درخت نہ ہونے کے برابر ہیں ،شہر کے تمام درخت شہر کی ترقی اور کھلی ہونے والی سڑکوں کی نذر ہو چکے ہیں ۔
راولپنڈی میں کام کرنے والی سماجی ورکر سمیرا گل نے کہا راولپنڈی میں پینے کے صاف پانی کا سوچنا ایک خواب جیسا ہے ،یہاں پینے کا پانی سیوریج ملا ہے ،جگہ جگہ سے پائپ ٹوٹے ہو ئے ہیں ،اسی طرح راولپنڈی میں اوپن سیوریج ہے جس سے بدبو کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے ،راولپنڈی میں مسلسل تعمیرات کی وجہ سے درختوں کی کٹائی ایک معمول بن گئی ہے اور اب تو راولپنڈی میں درخت ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔جس کی وجہ سے ماحول بہت آلودہ ہوچکا ہے اور لوگوں کیلئے سانس لینا بھی دشوارہو گیا ہے ۔لیکن یہ وجوہات تو ایک سائیڈ رہیں ۔راولپنڈی کی آلادگی اور فضا کو بدبودار کرنے میں ایک ادارے کا بہت اہم کردار ہے اور یہی ادارہ وہی ہے جسے شہر کی صفائی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ،راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کام شہر سے کچرا اٹھانا اور شہر کو صاف کرنا ہے ،مگر اس ادارے نے کمال ہی کردیا اور شہر کا کچرا اکٹھا کرنے کے بعد وہ اسے شہر کے دل لیاقت باغ میں کھلے آسمان تلے اکٹھا کرتے ہیں جس سے اس کوڑے سے نکلنے والی بدبو سارے شہر کی فضا کو نہ صرف آلودہ کرنے کا باعث ہے بلکہ اس سے فضا میں مسلسل ایک بدبو رہنا شروع ہو گئی ہے ،کھلے آسمان تلے رکھے اس کوڑا کرکٹ سے نکلنے والی میتھین گیس انسانی زندگی کیلئے انتہائی مضر ہے پرفضا ماحول میں سانس لینا ہر جاندار کا حق راولپنڈی کے عوام کیلئے تو صاف فضا جیسے ماضی کی کوئی بھولی بسری داستاں ہے ۔
ضرور پڑھیں :جلد پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش ہوگی!
پنجاب ٹرانسپرنسی اینڈرائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کے تحت راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی روانہ کی بنیاد پر 875ٹن اوسطً ویسٹ اکٹھا کرتی ہے ،2014سے لیکر جون 2022تک25لاکھ ٹن سے زیادہ کوڑا ٹھکانے لگایا گیا ہے ،کمپنی کے پاس شہر میں کوئی لینڈ فل یا ڈسپوزل سائٹ نہیں ہے ،شہر سے 30کلومیٹر دور چک بیلی روڈ پر لینڈ فل ہے ،کمپنی کے پاس12مختلف قسم اور سائز کی 235گاڑیاں موجود ہیں جو شہر سے کچرا اٹھانے کا کام کرتی ہیں ۔راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کے پاس کوئی ری سائیکل پلانٹ موجود نہیں ہے ۔ایک طرف راولپنڈی بیورو آف سٹیٹسٹک 2017کے مطابق پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑے شہر راولپنڈی شہر کی آبادی تقریباً 21 لاکھ ہے اور دوسری طرف ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کیلئے باقاعدہ کوئی پلاننگ نہیں ،کوئی ری سائیکل پلانٹ موجود نہیں تو یہ کوڑا کرکٹ آخر کہاں جا تا ہے اور کس طرح سے ماحول میں تعفن کا باعث بنتا ہے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے -
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ہم نے راولپنڈی ویسٹ منجمنٹ کمپنی کے سینئیر پروگرام منیجر محمد حسنین سے رابطہ کیا انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی ویسٹ منجمنٹ ایک سروس پرووائڈر ہے ،راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ جب بنی تومیونسپل کارپوریشن راولپنڈی نے کچھ سائٹس ہمارے حوالے کیں جن میں ایک ویسٹ لینڈ فل سائٹ چک بیلی خان روڈ پر راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کو دی گئی جہاں کوڑا ڈمپ کیا جا رہا تھا اور چونکہ یہ پہلے سے ہی ڈسپوزل کیلئے استعمال کی جا رہی تھی تو ہم نے بھی اسی کو استعمال کیا اس کے علاوہ ہمارے پاس کو ئی لینڈ نہیں جہاں پر کچرا ڈمپ کیا جا سکے وہ کوئی سٹینڈرڈ کی لینڈ سائٹ نہیں لیکن چونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی لینڈ دستیاب نہیں تو ہم اسی کو استعمال کر رہے ہیں۔ہم نے سوچا تھا کہ اگر ہمیں کسی اور جگہ زمین دستیاب ہو تو ہم وہاں عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق سینٹری لینڈ فل بنائیں پراپر سینٹری لینڈ فل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو اس سے زیر زمین پانی آلودہ ہوتا ہے نہ ہی زمین کو نقصان پہنچتا ہے اور ہوا بھی آلودہ نہیں ہوتی اور نہ پلوشن پھیلتا ہے ،روزانہ کی بنیاد پر ویسٹ کی سیلنگ بھی ہوتی ہے تو اس سے بھی اس کے مضر اثرات کنٹرول ہو جا تے ہیں ۔ابھی جس طرح سے ویسٹ کی ڈمپنگ ہو رہی ہے اس ویسٹ کا پانی زیرزمین پانی کیلئے نقصان کا باعث بن رہا ہے ،اور فی الحال ہمارے پاس کوئی حل موجود نہیں ہے ۔ہمیں جیسے ہی کوئی نئی سائٹ ملے گی ہم وہاں پر تمام اصول و ضوابط کو مدنظر رکھیں گے ۔
محمد حسنین نے مزیدبتایاکہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو ہم نے 2017میں لینڈ کیلئے درخواست کی تھی تو انہوں نے ڈمپ سائٹ کیلئے مندرہ چکوال روڈ پرایک لینڈ کی نشاندہی کی ہے لیکن ابھی تک ہمیں پوزیشن نہیں ملی جیسے ہی فزیکل پوزیشن ملے گی ہم اسے ایک بہترین انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق سٹیٹ آف دی آرٹ ڈپمنگ سائیڈ بنائیں گے اور پھر ہم وہاں ویسٹ و انرجی پروڈکشن کا پروگرام شر وع کریں گے جس کی کسی حد تک ہم نے پلاننگ کی ہو ئی ہے ۔اور وہاں پراپر طریقے سے ویسٹ کی ری سائکلنگ کی جا ئے گی ۔اور اسے ہم اسے لینڈ فل یا ڈمپ سائیڈ نہیں بلکہ سسٹین ایبل ڈسپوزل فیسیلیٹی کہیں گے ۔کیونکہ وہاں پر پراپر طریقے سے فضلہ کو انجینئرنگ لینڈ فل سائیٹ پرمختلف وسائل کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور کچرے کو مکمل طور پر کمپریس کیا جا سکتا ہے
نیشنل کلینر پروڈکشن سینٹر
کے کوآرڈینیٹر ارشاد رامے نے کہا کہ جہاں ایک طرف کچرا ماحول کی آلودگی کا باعث ہے تو دوسری طرف بیکار کچرازندگیاں بدل سکتاہے ،لیکن افسوس عوام اور حکومتیں،دونوں کچرے کی اہمیت کا کوئی شعور نہیں رکھتے۔سائنس وٹکنالوجی کی ترقی نے آج بظاہر بیکار و ناکارہ کچرے میں شامل بہت سی اشیا کو قیمتی بنا دیا ہے۔اورمختلف طریقوں کی مدد سے ان اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جس سکتا ہے ،یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ری سائیکلنگ (Recycling)کہلاتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں عام لوگوں کا وطیرہ ہے کہ وہ گھر کا کوڑا باہر کسی بھی جگہ پھینک دیتے ہیں۔حالانکہ مقامی حکومتوں نے کچرا پھینکنے کا مقامات بنا رکھے ہیں۔شہریوں کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ صرف انہی مقامات پر کچرا پھینکیں مگر بیشتر مرد وزن جہاں دل چاہے،کوڑا پھینک دیتے ہیں۔ہمارے ہاں خواتین سب سے زیادہ کوڑا جنریٹ کرتی ہیں ان کی تربیت کی ضرورت ہے اور اس تربیت کے تین بنیادی اصول ہیں یعنی کوڑا کم سے کم پیدا کرو،اسے دوبارہ استعمال کرنے کی کوشش کرو یا پھر اسے بحفاظت ٹھکانے لگا دو۔
حفاظت سے ٹھکانے کی تعلیم اس لیے دی گئی کہ اس کچرے کی ری سائیکلنگ سے نئی اشیاء بنتی ہیں ۔ہر گھر میں کم ازکم تین کوڑے دان یا بن ہونے چاہیں۔ایک میں نامیاتی(organic waste)کچرا یعنی کھانے پینے کی اشیا وغیرہ ڈالی جائیں۔دوسرے میں کاغذ اور تیسرے میں دیگر غیر نامیاتی کوڑا مثلا پلاسٹک،دھاتیں اور گلاس زینت بنتا ہے۔یوں پہلے شہری اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں اور پھر حکومت اپنا فرض انجام دیتی ہے۔ان دونوں کے تعاون اور تال میل سے ماحول صاف ستھرا رہتا ہے اور انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتا۔پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر ملکوں میں یہ رواج ہے کہ جہاں زیادہ کوڑا جمع ہوا،اسے آگ لگا دی ۔یا پھر اس کو خالی زمین پہ ڈال دیا۔عام لوگ تو نالوں کے کنارے یا خالی پلاٹوں میں کچرا ڈال دیتے ہیں۔ یہ سبھی طریقے ماحول اور انسانی صحت کے دشمن ہیں۔کوڑا جلانے سے اس میں شامل مضر صحت کے زہریلے اجزا ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں۔وہ پھر انسانوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر سکتے ہیں۔زمین پہ کچرا بکھیرنے کا نقصان یہ ہے کہ اس کے زہریلے مادے فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس علاقے کی فضا پھر معیاری نہیں رہتی اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔غرض پاکستان میں مقامی حکومتوں نے کچرا ٹھکانے لگانے کے جو طریقے اختیار کر رکھے ہیں،وہ ماحول اور انسان کے لیے مضر ہیں۔کچرا جلایا جائے تو اس میں شامل کیمیائی مادے جل اٹھتے ہیں۔ان کا زہریلا دھواں پھر ماحول آلودہ کرتا ہے۔اس دھوئیں میں سانس لے کر انسان متفرق بیماریوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ کچرا کھلی جگہ بکھیرا جائے تو وہ بھی ماحول اور فضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 21ٹن کچرا جنم لیتا ہے۔اس کی بیشتر مقدار شہروں میں پیدا ہوتی ہے۔سب سے بڑے شہر،کراچی میں روزانہ بارہ تیرہ ہزار ٹن(سالانہ ساڑھے چار لاکھ ٹن)کوڑا نکلتا ہے۔اس میں ہر قسم کو کچرا شامل ہے۔لاہور میں پانچ چھ ہزار ٹن روزانہ کچرا سامنے آتا ہے۔فیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،پشاور وغیرہ میں بھی ہر روز ہزارہا ٹن کچرا بنتا ہے۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ سے منسلک ایسوسی ایٹ ریسرچر کاشف مجید سالک نے راولپنڈی کی آلودگی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہو ئے کہا کہ یوں تو پوری دنیا ہی ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی کے مسائل سے دوچار ہے لیکن اگر پاکستان کی بات کی جا ئے تو یہاں ابھی تک لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کا اندازہ ہی نہیں ہے ،اسی طرح راولپنڈی میں مسلسل درختوں کی کٹائی نے شہر کی فضا آلودہ کردی ہے ،ہمارے ہاں ہاوسنگ پروجیکٹ اور ترقیاتی کاموں کے دوران جس طرح ماحول کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں اور اگر توجہ مبذول کرائی بھی جا ئے تو لاء کمپرومائز ہو رہے ہیں ،درخت کاٹنے پر کسی قسم کی قانونی کاروائی کی بجائے ذاتی تعلقات کو اہمیت دی جا تی ہے طاقت کا استعمال ہو تا ہے ،یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں سموگ کے ایشوز بہت بڑھ گئے ہیں ۔ان ماحولیاتی تبدیلیوں نے گندم کی کاشت پر اثرات ڈالے پھل فروٹ اور سبزیاں متاثر ہوئیں اور ان کی ترسیل بھی متاثر ہو ئی ،مارگلہ کی پہاڑیوں کی کتائی بھی جڑوا ں شہروں کے ماحول کو متاثر کرنے کا باعث ہے ،ماحول کی اس آلودگی کی وجہ قدرت سے زیادہ انسانی غفلت اور انسان کے غلط اقدامات ہیں،اگر ابھی بھی ہم اپنے کاموں اور روز شب کو ٹھیک کریں اور ماحول دوست اقدامات کریں تو ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی کی شدت اور تباہی سے خود کو اور اپنے آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں-
نوٹ:ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ