21 ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟ کیا احتجاج کرنا جرم ہے؟ جسٹس ہلالی

Feb 03, 2025 | 10:57:AM
21 ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟ کیا احتجاج کرنا جرم ہے؟ جسٹس ہلالی
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد کردہ 20 ہزار روپے جرمانہ واپس لے لیا، سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل نے دلائل مکمل کرلئے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ 21ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟ کیا احتجاج کرنا جرم ہے؟

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام 5 ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکا کرنے والے اور عام شہریوں میں کوئی فرق نہیں ہے؟،خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں کسی دہشت گرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو 21 ویں ترمیم نہ کرنا پڑتی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔

وکیل نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ 21 ویں ترمیم بلاوجہ کی گئی، 21 ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونا نہ ہونا سے کیا ہوگا، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ملزم کے حقوق ہوتے ہیں، گرفتاری سے پہلے بھی سزا کے بعد بھی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سب فیصلے ہمارے سامنے ہیں، ہمیں پتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ قانون ٹھیک بنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس پر لاگو ہوتا ہے، عدالت سے صرف یہ گزارش ہے کورٹ مارشل کا دروازہ نہ کھولیں، اگر اس اپیل کو منظور کیا جاتا ہے تو انسانی حقوق کے بر خلاف ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے ہمارے سامنے ایک اپیل ہے وہ سن رہے ہیں، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کا تعلق عوامی مفاد سے ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغوا کیا گیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے تو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملے کا کیس ملٹری کورٹ میں چلے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی زیلی شق تین اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، گر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔

وکیل نے مزید کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہاکہ آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ شکر ہے پورا نام تو پتا چلا ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے بتایا کہ ایف بی علی کیخلاف ملک کیخلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیا الحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، کورٹ مارشل کرنے والے ضیاالحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے، ضیاء الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا، اغوا کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب میں کہا کہ اس کے لیے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی، جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 21 ویں ترمیم کا کیا بنا تھا؟ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کو ملنے والی توسیع 2019 میں ختم ہو گئی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 21 ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟

خواجہ احمد حسین نے کہاکہ 9 اور 10 مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ احتجاج کرنا جرم نہیں املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے، اہم سوال ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے؟ ملزمان آزاد نہیں ہونگے کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے، اس موقع پر سماعت میں وقفہ ہوگیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے کہاکہ کوشش کروں گا 15 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں، عدالت کے سامنے ایک مسئلہ بنیادی حقوق اور دوسرا قومی سلامتی ہے، عدالت نے دونوں میں توازن پیدا کرنا ہو تو بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، عدالتی فیصلہ برقرار رہا تو کسی ملزم یا دہشتگرد کو فائدہ نہیں پہنچے گا، انسداد دہشتگری کا قانون موجود ہے جس میں گواہان کے تحفظ سمیت تمام شقیں ہیں، عدالت کسی بھی صورت سویلنز کو شفاف ٹرائل سے متصادم نظام کے حوالے نہیں کر سکتی۔

خواجہ احمد حسین نے مزید کہا کہ ملک عظیم وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے بنا، یہ آئینی بینچ قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے سبب قوم کو بھگتنا پڑا، میری استدعا ہے پلیز مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میرے موکل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، ہم نے اس حکم نامے کے خلاف نظرثانی بھی دائر رکھی ہے، استدعا ہے کہ جرمانہ عائد کرنے کا حکمنامہ واپس لیا جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چلیں ہم جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں، پھر انہوں نے مسکرائے ہوئے وضاحت کی کہ یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر موثر ہو چکی ہے، آئینی بینچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کی استدعا کے بعد آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانہ کا حکم نامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی نظرثانی واپس لینے پر جرمانہ ختم کردیا گیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل مکمل کرلئے۔

بعدازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔