ٹیکسوں کی بھرمار،عوام بے یارو مددگار،پٹرول بند،بجلی غائب،بلوں میں 10گنا اضافہ

Jul 03, 2024 | 09:34:AM

Read more!

(24 نیوز)ملک میں ایک بے چینی کی سی کیفیت ہے،غربت بھوک افلاس سر اُٹھا رہی ہے ۔آٹا گھی ،دالیں اور ضرورت ِزندگی کی اشیاء عام عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں ۔بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں پر عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے ۔دوسری جانب پیٹرولیم ڈیلر نے ایڈوانس ٹیکس فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اگر اُن کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو اُنہوں نے 5 جولائی کو پیٹرول پمپس بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔یعنی ایک ممکنہ سنگین بحران پیٹرول کی قلت کی صورت میں ہمیں نظر آرہا ہے۔لیکن سیاسی قیادت ہمیں کہیں نظر نہیں آرہی ۔اِس وقت سیاسی قیادت کا فقدان نظر آرہا ہے۔ظاہر ہے عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک مضبوط اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے ۔لیکن المیہ دیکھئے اِس وقت اپوزیشن ،اپوزیشن سے اُلجھ رہی ہے ۔ایک سیاسی جماعت کے رہنما آپس میں ہی لڑ رہے ہیں ۔عوام اِس وقت سڑکوں پر ہیں لیکن سیاسی قیادت کو آپس کے جگھڑوں اور اپنے اپنے مفادات سے فرصت ہی کہاں ہیں ؟عوام کو صرف بھوک سے غرض ہے۔عوام کو یہ غرض ہے کہ اُس کی دو وقت کی روٹی پوری ہورہی ہے یا نہیں ۔عوام کو یہ غرض نہیں کہ کس کے حصے میں کتنی مخصوص نشستیں آئیں گی ۔کون پی ٹی آئی میں رہے گا یا نہیں ؟کون کسی مخصوص جماعت کا جنرل کونسلر بنے گا؟یاکون سیکرٹری جنرل بنے گا؟عوام کو تو صرف مہنگائی کا خاتمہ چاہئے ۔لیکن بدقستی سے ہماری سیاسی لیڈر شپ میں بےحسی کا عنصر نمایاں نظر آرہا ہے۔یہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کلپ دیکھئے جو عوام کے حالات سے بے خبر ہوکر اپنی اپنی ذات کیلئے ایک دوسرے پر الزام تراشتی کرتے نظر آرہے ہیں۔

پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب مہنگائی سے ستائے عوام سراپا احتجاج ہیں لیکن اب تک اپوزیشن جماعتیں عوامی ایشوز پر بات کرتے تیار نظر نہیں آتی ۔یہاں تک کہ ایک اپوزیشن جماعت دوسری اپوزیشن جماعت پر سوال اُٹھاتی ہے۔مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی قیادت کی یکسوئی پر سوال اُٹھاتے ہیں ۔ایسے میں اپوزیشن حکومت کیخلاف تحریک کیسے چلائے گی ۔یہ مولانا فضل الرحمان کیا فرما رہے ہیں یہ بھی دیکھ لیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس تحریک چلانے کی بات تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کر رہی ہے اُس میں دھاندلی کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔اُس میں عوامی ایشو پر فوکس ہی نہیں کیا گیا۔یہ فوکس ہی نہیں کیا گیا کہ عوام کے مسائل کیا ہیں اور اُنہیں کیسے حکومت سے منوانا ہے۔بس اقتدار کی سیڑھی تک کیسے پہنچنا ہے ۔ یہی سوچ ہر پل پنپ رہی ہے۔ جب اپوزیشن میں یہ صلاحیت ہی نہ ہو کہ وہ حکومت پر عوامی ایشوز کو لے کر دباؤ ڈالے تو حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ غریب عوام کا سوچے۔ویسے بھی حکمران طبقے سے تو کوئی اُمید رکھنا ہی حماقت ہے ۔وہ پہلے عوام کو سرسبز باغ دکھاتے ہیں اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد صرف اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں ۔یعنی بے حسی کی مہر صرف ہماری اپوزیشن پر ہی نہیں حکمرانوں پر بھی ثبت ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ ن کی بات کریں تو وہ اقتدار میں آنے سے پہلے سابقہ حکومت کو اپنے نشانے پر رکھتی تھی اور عوام کو یہ یقین دلایا کرتی تھی کہ وہ اقتدار میں آکر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔بجلی کے یونٹس فری ملیں گے ، یعنی راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہوگا ۔ آئیے ایک جھلک اِس پر بھی ڈالتے ہیں۔
البتہ دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں بہی لیکن عوام کو مہنگائی کا لا محدود سمندر بہا کر ضرور لے کر جا رہا ہے۔اور حکومت کے کانوں پر جون تک نہیں رینگ رہی ۔اِس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ابھی حالیہ دنوں میں اداکار راشد محمود کا 45 ہزار بل آیا جس پر وہ افسردہ نظر آئے اور مایوسی کے عالم میں اُنہوں نے موت کی خواہش کا اظہار کیا ۔ابھی حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں سینیئر اداکار اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری آمنے سامنے نظر آئے ۔نجی نیوز چینل کا ایک رپورٹر عظمیٰ بخاری سے سوال کرتا ہے کہ سینیئر اداکار راشد محمود کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں اِنہوں نے بلوں کے بارے میں بات کی، تو عظمیٰ بخاری یہ کہتے ہوئے آگے چلی گئیں کہ میں ان کا کیا کروں سب کو ہی بل زیادہ آئے ہیں۔


اب ایک خاتون جو صوبائی وزیر اطلاعات ہیں ۔وہ اِس قدر نامناسب رویے کا اظہار کر رہی ہیں ۔وہ کہتی ہے کہ میں کیا کروں اگر بل زیادہ آیا ہے۔تو سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے کچھ نہیں کرنا تو پھر آپ کے اقتدار میں رہنے کا کیا فائدہ ؟پھر اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ انتخابات جیتنے کیلئے عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں؟یعنی آپ کو یہ فرق ہی نہیں پڑتا کہ عام عوام کو اُن کی حیثیت سے زیادہ بجلی کے بل آرہے ہیں۔ جن کی ادائیگیوں کیلئے اُن کی جیب اجازت نہیں دیتی۔آپ لوگ تو عوام کو مفت بجلی کے یونٹس دینے والے تھے ع؟کیا عوام سوال کرنے کا بھی حق نہیں رکھتی کہ وہ اپنے حکمران طبقے سے پوچھ سکیں کہ اُن کو بجلی کے بل کیوں زیادہ آرہے ہیں ؟ دوسری جانب پیپلزپارٹی جو حکومت کی اتحادی جماعت ہے وہ بھی مہنگائی کے معاملے پر چھپ سادھ کر بیٹھی ہوئی ہے ۔پہلے تو بلاول بھٹو پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی ایم ایف کہہ کر پکارتے تھے اور اُس وقت اُن کو عوام مہنگائی میں ڈوبے بھی نظر آتے تھے ۔


یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے رویے کہ وجہ سے آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ عوام پریشانی کے عالم میں ہے۔اوروہ اپنے شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر عوام شدید ردعمل دے رہے ہیں جس کی ایک جھلک آپ کو دکھاتے ہیں۔صرف یہی نہیں عوام اور تاجر بڑھتے ٹیکسز اور مہنگائی اور بجلی کے بلوں پر بھی حکومتی پالیسیوں سے نالاں نظر آرہے ہیں ۔
اب مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچ سکتتے ہیں کہ اِس وقت کوئی بھی ایک ایسی سیاسی جماعت نہیں جو عوامی ایشوز پر سیاست کرے ۔کسی کی توجہ عام عوام کے معاملات پر نہیں ہے۔سب کو فکر صرف اپنے اپنے عہدوں اور اپنے اقتدار کی ہے۔ایسے میں سیاسی لیڈر شپ کا جمود تو فطری ہے۔جہاں عوام تو سڑکوں پر ہیں لیکن قیادت اپنی مگن میں مست ہے۔

مزیدخبریں