پی ٹی آئی کی 180 نشسستیں،سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ؟شہباز کے دن ختم ،اڈیالہ جیل سے سرپرائز

Jul 03, 2024 | 09:41:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔منگل کے روزسپریم کورٹ نے سماعت کے بعد اِس کیس کی اگلی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی ہے۔ اب تحریک انصاف فیصلے کی تاخیر کے حوالے سے تشویش میں مبتلا نظر آتی ہے۔سینیٹر شبلی فراز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں اِس کیس کو جان بوجھ کر طول دیا جارہا ہے ۔ اور اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔شبلی فراز نے کہا کہ اگر مقدمے کو طول دیا گیا تو اس سے ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام آئے گا، جب سیاسی عدم استحکام آئے گا تو یقیناً ملک میں بحرانی کیفیت بھی پیدا ہوگی۔اِس کے ساتھ کنول شوزب اور عامر ڈوگر بھی کیس کے حوالے سے کچھ فرما رہے ہیں ۔
پروگرام ’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما سپریم کورٹ پر شک کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ فیصلے کو طول دے رہی ہے؟تحریک انصاف یہ دعویٰ کس بنیاد پر کر رہی ہے کہ کیس پر جان بوجھ کر فیصلہ نہیں کیا جارہا؟ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کو فیصلے کی اِتنی جلدی کیوں ہے؟کیا تحریک انصاف ریمارکس اور عدالتی کارروائیوں کی بنیاد پر پہلے سے ہی اِس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ فیصلہ اُس کے حق میں آئے گا۔دوسری جانب ممکنات پر بات کریں تو اگر تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ نہیں آتا تو کیا تحریک انصاف اِس فیصلے کو تسلیم کرلے گی ؟یا پھر وہ نئی محاذ آرائی کو جنم دے گی۔کیونکہ یہ تحریک انصاف کا ماضی رہا ہے کہ وہ اپنے خلاف فیصلوں پر ججز اور عدلیہ پر تنقید کے نشتر برساتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک بار پھر تحریک انصاف اِس روش پر چل رہی ہے؟آج چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں سنی اتحاد کونسل، الیکشن کمیشن کے وکلا اور اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے آیا، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی نہیں کہ غلطی کو ٹھیک کرے جبکہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے دلائل میں کہا کہ 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سےمتعلق ریکارڈ ہے، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا، 272 مکمل سیٹیں تھیں، 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے جن میں سے 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے جس کے بعد مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 2002 کے انتخابات میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے مگر مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیاگیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین اور اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل کے دلائل پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل51 ایک سیاسی جماعت کا حق ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو باہر کیا جو ایک اہم سوال ہے۔ کیا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں قانون کی خلاف ورزی کو دیکھے؟ ووٹرز نے سیاسی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے خود کہا اگر آزاد امیدوار زیادہ ہوں تو کچھ غیرمعمولی صورتحال ہوگی، موجودہ صورتحال میں آزاد امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، سوال یہ ہے کہ آزاد امیدوار اتنی زیادہ تعداد میں آئے کیسے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اتنے زیادہ آزاد امیدوار بنائے؟ موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے آیا، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی نہیں کہ غلطی کو ٹھیک کرے، کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے۔ اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کسی فریق نے یہ کہا ہے کہ نشستیں خالی رہیں گی؟ ہر فریق کہتا ہے نشستیں ہمیں دی جائیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے؟ نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا عدالت آئین کی سنگین خلاف ورزی کی توثیق کر دے؟ کیا کمرے میں موجود ہاتھی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ ایک آئینی ادارے نے غیر آئینی تشریح کی اور سپریم کورٹ توثیق کرے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں، ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں 

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: