(24نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے زیراہتمام اسلام آباد میں منعقدہ پری بجٹ سیمینار میں پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیز اور کارکردگی کا مختصر جائزہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی میں تین، کھانے پینے کی اشیا میں پانچ گنا اضافہ اورمعاشی نمو میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی۔
50 لاکھ پاکستانی بے روزگار ،2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے،(ن)لیگ کی حکومت میں پاکستان کی معیشت کا حجم 313 ارب امریکی ڈالر تھا،عمران خان نے 5.5 فیصد کمی کرتے ہوئے 296 ارب امریکی ڈالر پر پہنچا دیا ،(ن)لیگ کے آخری سال جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8 فیصد تھی، 2020 میں منفی 0.5 فیصد شرح نمو رہی ، پی ٹی آئی ریونیو بڑھانے میں ناکام اور ٹیکس وصولیوں میں کاکردگی انتہائی ہولناک رہی ،موجودہ حکومت نے قومی قرض میں 13000 ارب روپے کا اضافہ کیا،پہلے دفاع اور قرض کی ادائیگی کی رقم محفوظ ہوتی تھی ،اب قومی دفاع کےلئے تقریباً تمام رقم ہی ادھار لینا پڑےگی جو ہماری سلامتی کےلئے ایک مالیاتی خطرہ ہوگا۔
رواں برس ایک بار پھر بدقسمتی سے بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 8 فیصد سے زیادہ ہوگا،تین سال میں پی ٹی آئی بجٹ خسارے 10000 ارب روپے سے بڑھ جائیں گے،بجلی کی قیمت میں 60 فیصدظالمانہ اضافہ کرنے کے باوجود گردشی قرض آج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ، رواں برس گردشی قرض 2800 ارب کی حد عبور کرجائے گا ،مالیاتی عدم استحکام اور سپلائی میں تعطل پیدا ہوسکتا ہے،برآمدات اب بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکیں جہاں 2018 میں تھیں،حزب اختلاف پاکستان کے عوام پرحکومت کو مزید بوجھ لادنے نہیں دےگا،ہم حکومت کو اشرافیہ اور مافیاز کے لئے بجٹ لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عوام کو مزید بوجھ کا شکار کرنے کےلئے نئے ٹیکس لگائے جائیں اور نہ ہی شرح میں کوئی اضافہ کیاجائے ،بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیاجائے، ٹیوب ویل پر بجلی کے نرخ (ن) لیگ کے دور کے 5.35 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ کی سطح پر واپس لائے جائیں،کے شعبے میں اصلاحات منظر عام پر لائی جائیں ،سی پیک، آبی شعبے اور موجودہ سکیموں کو مکمل کرنے کے لئے ترقیاتی اخراجات کو بڑھایا جائے ،ہائیر ایجوکیشن کے لئے افراط زر میں اضافے کے تناسب سے بجٹ میں اضافہ کیا جائے،چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں اور زرعی شعبے کے لئے خصوصی مراعات دی جائیں۔
،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،احساس پروگرام کے ذریعے غریب عوام کے ریلیف کو بڑھایا جائے۔ جمعرات کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے زیراہتمام اسلام آباد میں منعقدہ پری جائزہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہاگیا کہ پاکستان کے عوام کو اپنے معیار زندگی میں بہت بڑی تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ہے، 2018 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جب حکومت چھوڑی تھی تو پاکستان کی معیشت کا حجم 313 ارب امریکی ڈالر تھا،تین سال بعد عمران خان نے اس میں 5.5 فیصد کمی کرتے ہوئے 296 ارب امریکی ڈالر پر پہنچا دیا ،ہماری آبادی کی رفتارتین سال میں 7.5 فیصد بڑھ چکی ہے جبکہ سالانہ اڑھائی فیصد بڑھ رہی ہے۔ یعنی پاکستانیوں کی آمدنی میں براہ راست کمی آئی ہے اور ان کی قوت خرید میں 13 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے، ان تین سال کے دوران پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہماری شرح نمو (جی ڈی پی) ڈالرز میں کم ہوئی۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ اپنے پانچ سال کے دور حکومت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شرح نمو (جی ڈی پی) 2.8 فیصد سے بڑھا کر 5.8 فیصد کی، افراط زر (مہنگائی) 11.8 فیصد سے 3.9 فیصد کی اور ٹیکس وصولی 1946 سے دوگنا بڑھا کر تقریبا 3900 ارب روپے کی،تین سال میں انتہائی زیادہ مہنگائی (افراط زر) کے باوجود پی ٹی آئی کی ٹیکس وصولی جمود کا شکار رہی اور جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے اس میں کمی آئی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے مہنگائی میں تین گنا اضافہ کیا، کھانے پینے کی اشیاءمیں پانچ گنا اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں معاشی نمو میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی، تین سال بعد اگر ہم پی ٹی آئی کے متنازعہ اور ناقابل اعتبار اعدادوشمار کو قبول کرلی بھی لیں تو بھی فی کس آمدنی کے لحاظ سے روپے کی حقیقی قدر میں جی ڈی پی کم ہوا۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت کے آخری برس جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8 فیصد تھی جو 16 سال میں بلند ترین تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پانچ سال کے دوران ہر سال جی ڈی پی 4 فیصد سے زائد کی شرح سے مسلسل بڑھ رہا تھا، پی ٹی آئی کے دور میں جی ڈی پی میں نمایاں اور مسلسل کمی آئی۔ 2019 میں 2.1 فیصد اور 2020 میں منفی 0.5 فیصد شرح نمو رہی جو 1952 کے بعد سب سے کم ترین سطح تھی۔ پی ٹی آئی 2021 میں شرح نمو 3.9 فیصد ہونے کا دعوی کررہی ہے لیکن اس دعوے کو غیرجانبدار معاشی ماہرین چیلنج کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا یہ دعوی بالفرض مان بھی لیا جائے تو بھی تین سال میں پی ٹی آئی کے دور کی اوسط جی ڈی پی شرح نمو1.8 فیصد بنتی ہے جو آبادی میں اضافے کی رفتار کی شرح سے کم ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ پی ٹی آئی حکومت کی غلط پالیسیز اور بدانتظامی سے ملک میں بے روزگاری اور غربت میں خوفناک اضافہ ہوا ہے، اس کے نتیجے میں 50 لاکھ پاکستانی بے روزگار ہوگئے جبکہ اضافی 2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے۔رپورٹ میں کہاگیاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دورحکومت مکمل کیا تو پاکستان میں صرف 35 لاکھ بے روزگار رہ گئے تھے،اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سال کے دور میں روزگار کے مواقع پیدا کئے،تین سال میں پی ٹی آئی نے اضافی 50 لاکھ لوگوں کو بے روزگار کردیا،آج پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد تقریبا 85 لاکھ ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح تقریبا 15 فیصد ہے جو ملک کی تاریخ میں بے روزگاری کی سب سے بلند ترین شرح ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 2013 میں جب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ملی تو تقریبا ساڑھے 7 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے،پانچ سال کے دور حکومت میں غربت کے خاتمے کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) 2 کروڑ لوگوں کو بدترین غربت کے شکنجے سے نکالنے میں کامیاب ہوئی،پی ٹی آئی کی غریب ک±ش اور غلط پالیسیز کے باعث تین سال سے بھی کم عرصے میں 2 کروڑ مزید لوگ بدترین غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ اس طرح عمران خان نے ”غربت“ ختم کی اور اس تمام محنت پر پانی پھیر دیا جو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سال کے دور میں دن رات کی تھی۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ غیرہنرمندافراد کی حقیقی آمدن گزشتہ تین سال میں 18 فیصد کم ہوچکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی عوامی ترقیاتی (پبلک ڈویلپمنٹ) اخراجات میں جی ڈی پی کے تعلق سے تقریبا نصف یا 2.5 فیصد کمی ہوئی، جی ڈی پی کے 2.5 فیصد کی نسبت سے اس کمی نے بے روزگاری کو مزید بڑھایا۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ اس پر شدید ترین مہنگائی خاص طورپر کھانے پینے کی اشیاءیا خوراک کی قیمتوں میںایک دہائی میں سب زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے عوام پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا اور ان کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول محال ہوگیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام کے بعد آٹے (گندم) کی قیمت 70 روپے فی کلو اور چینی کی قیمت 110 روپے کلو ہے،یہ پی ٹی آئی کی غلط پالیسیز کا براہ راست نتیجہ ہے جو مافیاز کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور اشیاءکی فراہمی برقرار رکھنے، اس کے مناسب انتظام میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس میں بدترین اور مجرمانہ نااہلی کی مرتکب ہوئی۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ قیمتوں خاص طورپر کھانے پینے کی اشیاءمیں اس ہوشربا اضافے کی بنیادی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کیا جانے والا اضافہ بھی ہے، اس کے علاوہ نوٹ چھاپنا اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ 2018 کے آخری برس ہمارے ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیوز اتنی مقدار میں موجود تھے جس میں سے ہم صوبوں کو ان کا حصہ دینے اور قرض کی ادائیگی کے علاوہ قومی دفاع کی ضروریات پوری کرلیتے تھے اور اس کے بعد بھی کچھ رقم ہمارے پاس بچ جاتی تھی، لہذا دفاع اور قرض کی ادائیگی کی رقم محفوظ ہوتی تھی۔ تین سال کے مختصر عرصے میں اب صورتحال یہ ہے کہ فی کس آمدنی میں منفی شرح نمو، منفی کے بعد کم ترین قومی شرح نمو، انتہائی زیادہ مہنگائی، بلند ترین افراط زر کے باوجود جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوئی ہے۔ لہذا رواں برس قابل تقسیم محاصل سے صوبوں کو حصہ دینے اور قرض کی ادائیگی کے بعد دفاع سمیت کسی اور چیز پر خرچ کے لئے یا تو پیسے نہیں ہوںگے یا پھر انتہائی قلیل مقدار میں ہوں گے۔ لہذا قومی دفاع کے لئے تقریبا تمام رقم ہی ادھار لینا پڑے گی جو ہماری سلامتی کے لئے ایک مالیاتی خطرہ ہوگا۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ پی ٹی آئی ریونیو بڑھانے میں ناکام رہی اور اس نے ہماری قومی سلامتی کو ایک ایسے وقت میں خطرات سے دوچار کردیا ہے جب ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہت سارے مسائل درپیش ہیں۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر مضبوط سلامتی کی ضرورت ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے دفاعی اخراجات کا حصہ پی ٹی آئی کے دور میں مسلسل کم ہورہا ہے اور جدید ترین دفاعی سازوسامان کی فراہمی کے لئے وسائل کی گنجائش سکڑ کر رہ گئی ہے۔ کہاگیاکہ موجودہ حکومت نے قومی قرض میں 13000 ارب روپے کا اضافہ کیا۔ قرض کے ساتھ ادائیگیوں (Debt plus Liabilities) کو بھی ملا لیا جائے تو اس قرض کی مقدار 15000 ارب روپے ہوجاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے تین سال میں جتنا قرض بڑھایا ہے، وہ ہماری قومی تاریخ میں کسی حکومت نے اپنی پوری مدت کے دوران نہیں بڑھایا۔71 سال میں مجموعی طورپر بڑھنے والے قرض کے مقابلے میں تین سال سے کم عرصے میں موجودہ حکومت نے تن تنہا 54 فیصد قومی قرض میں اضافہ کیا۔ پی ٹی آئی ہر سال ملک پر 4747 ارب روپے کا بوجھ بڑھا رہی ہے اور اس کے بدلے ملک میں کچھ بھی تعمیروترقی نہیں کرسکی۔ اس کے برعکس پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2132 ارب روپے ہر سال اوسط قرض لیا اور ملک بھر میں سکول، ہسپتال، بجلی کے کارخانے، موٹر ویز اور سی پیک بنایا۔ تاریخ میں سب سے تیزی سے پی ٹی آئی کے دور میں ملک مقروض ہورہا ہے۔ موجودہ دور حکومت کے محض تین سال میں جی ڈی پی کے تناسب سے حکومتی قرض 68 فیصد سے بڑھ کر تقریبا 80 فیصد ہوچکا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پاکستانی پر جو قرض ہمارے دور میں 7218 روپے تھا، وہ پی ٹی آئی کے دور میں انتہائی تیزی سے بڑھ کر اب 20,871 روپے ہوگیا ہے۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ ہر سال اضافی ٹیکسوں کی بھرمار کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کی ٹیکس وصولیوں میں کاکردگی انتہائی ہولناک رہی ہے،پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں 1.9 کھرب روپے سے بڑھا کر 2018 میں 3.8 کھرب روپے کر دی تھیں۔ پی ٹی آئی اپنے ابتدائی دو سال میں ایف بی آر کے ریونیوز بڑھانے میں ناکام رہی۔ 2019 اور 2020 دونوں سال کے ایف بی آر کے ریونیوز ملا کر 3.8کھرب روپے تھے، جبکہ اس کے مقابلے میں اتنے ریونیوز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آخری ایک سال میں جمع ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی ٹیکس ہدف بھی پورے نہ کرسکی۔ 2021 میں 400 ارب ہدف سے کم تھا۔ اس سال افراط زر اور شرح نمو کے مقابلے میں کم ہونے کا امکان ہے ،بظاہر اس معمولی اضافے کا اصل مطلب یہ ہوگا کہ حقیقی معنوں میں اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومتی مدت جب مکمل کی تھی تو دوگنا کرنے کے ساتھ ریونیوز جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس جی ڈی پی کا 13 فیصد تھے، جو کم ہوکراب10.9 فیصد پر ہیں۔ بالواسطہ (Indirect) ٹیکسوں کی انتہائی زیادہ شرح کے باعث ٹیکس ڈھانچہ اور بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ عمران خان کے دور میں مالیاتی خسارہ پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین (9.1 فیصد اور8.1 فیصد) ہے اور رواں برس ایک بار پھر بدقسمتی سے بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 8 فیصد سے زیادہ ہوگا۔ تین سال میں پی ٹی آئی بجٹ خسارے 10000 ارب روپے سے بڑھ جائیں گے۔ یہ خسارہ وزیراعظم کے طورپر نوازشریف کی تینوں حکومتوں کے دور سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ بجلی کے شعبے کے گردشی قرض میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا، بجلی کی قیمت میں 60 فیصدظالمانہ اضافہ کرنے کے باوجود گردشی قرض آج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور تاریخ کی تیز ترین رفتار سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ رواں برس گردشی قرض 2800 ارب کی حد عبور کرجائے گا جو تین سال میں 1700 ارب روپے کا اضافہ بنتا ہے جبکہ ہر ماہ 50 ارب روپے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ یہ قرض اب خطرناک حد سے آگے بڑھ چکا ہے اور اس کے نتیجے میں مالیاتی عدم استحکام اور سپلائی میں تعطل پیدا ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ مزید برآں انتہائی بلند اور ظالمانہ مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کا عوام کو سامنا ہے۔ یاد رہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ گردشی قرض پر قابو پانے کا نام لے کر کیاگیا تھا لیکن گردشی قرض قابو سے باہر ہوچکا ہے۔
گردشی قرض میں اضافے کے پیچھے بجلی کے بلوں کی وصولی میں کمی ہے جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں 89 فیصد سے بڑھ کر 93 فیصد ہوئی تھی جبکہ گزشتہ برس کم ہوکر 82 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام میں نقصانات بڑھے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورکے آخری برس یہ نقصانات 18 فیصد پر تھے جو آج 19 فیصد ہیں،پی ٹی آئی حکومت نے بار بار میرٹ آرڈر کی خلاف ورزی کی، اس کے علاوہ انہوں نے زیادہ مہنگے اور کم بجلی پیدا کرنے والے کارخانے چلائے۔ گزشتہ برس نومبر اور دسمبر میں پی ٹی آئی نے بجلی بنانے کے لئے ڈیزل پلانٹ چلائے حالانکہ انہیں گیس، ایل این جی یا کوئلے سے پاور پلانٹس کو چلانا چاہئے تھا۔۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ بجلی بنانے کی لاگت میں یہ دانستہ اضافہ اور انتہاءکی بدانتظامی کے نتیجے میں بجلی کی قیمت اور گردشی قرض میں اضافہ ہوا۔ بد سے بدترین یہ ہوا کہ پی ٹی آئی نے گیس کے شعبے کا گردشی قرض بھی قوم کے گلے ڈال دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق معیشت کا حجم سکڑنے، درآمدات اور پاکستانی روپے کی قدر میں بے تحاشہ کمی کے باوجود ہمارے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا۔ کوئی اضافہ اگر ہوا بھی ہے تو وہ ریکارڈ غیرملکی قرضوں کی وجہ سے ہے۔ برآمدات اب بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکیں جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں 2018 میں تھیں۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ موجودہ حکومت کے دو سابقہ بجٹ عوام کو کوئی بامعنی ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے گلا گھوٹنے والے پروگراموں کی روشنی میں تیار کرکے قوم پر مسلط کردئیے گئے۔ آئی ایم ایف کی ان سخت اور عوام دشمن شرائط کو محض اس لئے موجودہ حکومت نے تسلیم کرلیا کیونکہ نہ تو انہیں اس کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی یہ اہلیت ہی موجود تھی کہ ملکی معاشی ترقی پر مبنی کوئی جامع حکمت عملی وضع کرتے اور پھر آئی ایم ایف سے کوئی مناسب بات کرتے،آج ملک کو قیمتوں کے علاوہ چینی، گندم، خوردنی تیل، مرغی، دودھ، انڈے، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اضافی گندم پیدا کرنے والے ملک میں آٹے کی فراہمی یقینی نہ بناسکنے والی حکومت کی نااہلی اور کرپشن کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے،کفایت شعاری کا ڈھنڈورا پیٹنے والی حکومت کے دور میں وزارتوں کے اخراجات میں ریکارڈ اضافہ ہوا لیکن دوسری طرف ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی بھی کردی گئی۔ صوبوں نے اپنے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی لیکن اخراجات جاریہ اور وزارتوں کو چلانے پر ریکارڈ خرچہ کرکے اپنے ہی دعووں کی دھجیاں اڑائی گئیں۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ پاکستانی اس ناروا صورتحال سے اب عاجز اور بے زارہوچکے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی حکومت کی سنگین نااہلی اور غیرموثر ہونے کا مزید بوجھ اٹھانے کو ہرگز تیار نہیں،حزب اختلاف پاکستان کے عوام پرحکومت کو مزید بوجھ لادنے نہیں دے گا، حکومت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ عوام دوست بجٹ لائے جس کے ذریعے مقامی کاروبار پھلے پھولے، جس کے ذریعے سرمایہ کار دوست اور روزگارپیدا کرنے والا ماحول پیدا ہو، جس سے کسانوں کی مدد ہو، پاکستانیوں کے لئے فوڈ سکیورٹی یقینی بنانا ممکن ہوسکے اور غریبوں کی زندگی میں آسانی آئے۔ ہم حکومت کو اشرافیہ اور مافیاز کے لئے بجٹ لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
رپورٹ میں کہاگیاکہ حکومت آئی ایم ایف سے ’ای ایف ایف (EFF) پروگرام کی شرائط پر بات کرے تاکہ عوام کو بڑا ریلیف مل سکے،پاکستان کے عوام کی جانب سے ہمارا مطالبہ ہے کہ بجٹ 2021-2022 میں عوام کو مزید بوجھ کا شکار کرنے کے لئے نئے ٹیکس لگائے جائیں اور نہ ہی ٹیکسوں کی شرح میں کوئی اضافہ کیاجائے ۔ مطالبہ کیا گیاکہ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیاجائے، خاص طورپر بجلی کی قیمت مزید نہ بڑھائی جائے، یقینی بنایا جائے کہ ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل رہیں۔ ٹیوب ویل پر بجلی کے نرخ مسلم لیگ (ن) کے دور کے 5.35 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ کی سطح پر واپس لائے جائیں۔مطالبہ کیا گیاکہ سی پیک، آبی شعبے اور موجودہ سکیموں کو مکمل کرنے کے لئے ترقیاتی اخراجات کو بڑھایا جائے اور گزشتہ برس کے اس شعبے کے لئے باقی ماندہ بجٹ کو مناسب انداز میں نئے بجٹ میں شامل کیاجائے۔
مسلم لیگ (ن) دور حکومت میں تجویز کردہ سی پیک کے تحت کراچی تا پشاور(ML-1 )ریلوے لائن کی تعمیر کے آغاز میں سہولت دی جائے۔ ہائیر ایجوکیشن (اعلی تعلیم) کے لئے افراط زر میں اضافے کے تناسب سے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ مطالبہ کیا گیاکہ 5 برآمدی شعبوں کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیاجائے جیسا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں کیاگیا تھا ،مینجمنٹ میں بہتری، ’ایس او ایز‘ میں اصلاحات، نظم ونسق چلانے پر اٹھنے والے اخراجات میں معاشی حسن تدبیروکفایت اور حکومتی قرض کے بہتر انتظام کے ذریعے اخراجات جاریہ پر قابو پایاجائے ،بجلی کے شعبے میں اصلاحات منظر عام پر لائی جائیں اور ان پر عوامی بحث کرائی جائے۔ مطالبہ کیاگیاکہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں (SMEs) اور زرعی شعبے کے لئے خصوصی مراعات دی جائیں جبکہ مقامی برآمدات کی حوصلہ افزائی کے لئے برآمدات کے فروغ کی حامل زیادہ وسیع مراعات دی جائیں،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام/ احساس پروگرام کے ذریعے غریب عوام کے ریلیف کو بڑھایا جائے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ مندرجہ بالا اقدامات عوام کی بقا کے لئے ناگزیر ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے حکومت کو معاشی اصلاحات کی حکمت عملی کی تیاری میں مدد کی پیشکش کی تھی جسے حکومت نے عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ حکومت اس پیشکش کو قبول کرلیتی تو پاکستان کو ان سنگین نقصانات سے بچایاجاسکتا تھا جو حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے ملک کو اٹھانے پڑے ہیں۔