عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا:جسٹس اطہر من اللہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری) سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف کیس کی براہ راست سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13ججز پر مشتمل فل کورٹ مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم اور ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے،وکیل سنی اتحاد فیصل صدیقی کا کہنا تھا یہاں دو مختلف درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کا کہنا تھا پشاور ہائیکورٹ میں ہماری حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہے، پشاور ہائیکورٹ کے آرڈر پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست تھی، سپریم کورٹ پہلی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ کا متعلقہ فیصلہ معطل کر چکی ہے۔
کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کنول شوزب نے فریق بننے کی متفرق درخواست دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا فیصل صدیقی کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر آپ کو بھی سنیں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کیس میں فریق مخالف کون ہیں؟ بینیفشری کون تھے جنہیں فریق بنایا گیا؟ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ جنہیں اضافی نشستیں دی گئیں وہی بینیفشری ہیں، مجموعی طور پر 77 متنازع نشستیں ہیں،جسٹس فائز عیسیٰ نے پوچھا قومی اسمبلی کی کتنی اور صوبائی اسمبلی کی کتنی نشستیں ہیں؟ تفصیل دے دیں، فیصل صدیقی نے بتایا قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازع ہیں،وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ سندھ میں 2 نشستیں متنازع ہیں، ایک پیپلز پارٹی اور دوسری ایم کیو ایم کو ملی جبکہ پنجاب اسمبلی میں 21 نشستیں متنازع ہیں جس میں سے 19 نشستیں ن لیگ، ایک پیپلز پارٹی اور ایک استحکام پاکستان پارٹی کو ملی، اقلیتوں کی ایک متنازع نشست ن لیگ، ایک پیپلز پارٹی کو ملی۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں 8 متنازع نشستیں جے یو آئی کو ملیں، خیبرپختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بھی 5، 5 نشستیں ملیں، ایک نشست خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین اور ایک عوامی نیشنل پارٹی کو ملی، خیبرپختونخوا میں 3 اقلیتوں کی متنازع نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دی گئیں،جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ ان جماعتوں نے اپنی نشستیں کتنی جیتی ہیں؟ جس پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو تمام جماعتوں کی نشستوں کی تفصیل بتا دی،مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی مخالفت کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا آپ کی جماعت کا پورا نام کیا ہے؟ جس پر کامران مرتضیٰ نے بتایا ہماری جماعت کا نام جمیعت علماء اسلام پاکستان ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگر آپ کی جماعت سے ف نکال دیں تو کیا حیثیت ہو گی؟ جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا پارٹی کا لیڈر نکل جائے تو پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا اے این پی اور استحکام پاکستان پارٹی کی طرف سے کوئی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ اے این پی اور استحکام پاکستان کی طرف سے کوئی نہیں ہے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے عدالت کو بتایا کہ امیدواروں نے سرٹیفکیٹ لگایا تھا، الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ آزاد امیدوار ہیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہے کہ کسی کو خود آزاد ڈیکلئیر کر دے؟ جب پارٹی بھی کہہ رہی ہو یہ ہمارا امیدوار ہے، امیدوار بھی پارٹی کو اپنا کہے تو الیکشن کمیشن کا اس کے بعد کیا اختیار ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کیا بینیفشری جماعتوں میں سے کوئی عدالت میں سنی اتحاد کونسل کی حمایت کرتی ہے؟ جس پر تمام جماعتوں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کر دی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے اس کا مطلب ہوا آپ سب اضافی ملی ہوئی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کر سکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہو گئی اور جنازہ نکل گیا، کیا یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت برقرار تھی اور مخصوص نشستوں کی فہرستیں بھی جمع کرائی تھیں؟
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں،چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں،فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزہ اور تکلیف یہی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے، اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہو چکی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں، عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیئے۔
چیف جسٹس نے ایک بار پھر فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل نہیں دینگے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے، فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے، اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔