سائفر کیس کا فیصلہ آگیا ،سزائیں معطل،عمران خان ،شاہ محمود قریشی بری
Stay tuned with 24 News HD Android App
(حاشروڑائچ)سائفر کیس ، بانی پی ٹی آئی کی سزامعطل،اسلام آباد ہائیکورٹ نے محفوظ فیصلہ سنادیا،عمران خان ،شاہ محمود قریشی کو بری کردیا گیا ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سزائیں معطل کردی ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزاکیخلاف اپیل منظورکرلی،اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں بری کر دیا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مرکزی اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا،فیصلہ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن نے سنایا۔
ٹرائل کورٹ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمودقریشی کو 10،10سال قید کی سزاسنائی تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کیس کی سماعت کررہے تھے،عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی وکلا عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پروکیل پراسیکیوشن نے بتایا کہ پراسیکیوٹر ذوالفقار عباسی نقوی 20 منٹ میں آرہے ہیں، اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف آپ کے لیے بیٹھے رہیں اور کوئی کام نہیں؟ ہم نے ریگولر ڈویژن بینچ کینسل کیا ہے، کیا حامد علی شاہ صاحب نے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے؟اس پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حامد علی شاہ صاحب سے ابھی بات ہوئی وہ والدہ کے پاس معروف ہسپتال میں ہیں، وکیل پراسیکیوشن نے کہا کہ سلمان صفدر بے شک چاہیں تو دلائل کا آغاز کر دیں۔
اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا ، 11 بجے ہم نے ٹائم کا بتا دیا تھا، اس کیس کی وجہ سے ریگولر ڈویژن بینچ کینسل کی ہے اور سرکاری وکلا نہیں ہیں۔بعد ازاں بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کردیا۔
انہوں نے کہا کہ اعظم خان نے سائفر عمران خان کو دیا، اس سے متعلق کوئی دستاویز نہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس متعلق تو آپ کے کلائنٹ کا اپنا اعتراف بھی موجود ہے، سلمان صفدر نے بتایا کہ یہ تو پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ثابت کریں، قانون بڑا واضح ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں ، پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے، ایف ایم اے پراسیکیوٹر کی جانب سے کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی نے 342 میں گناہ تسلیم کیا ہے، سیکریٹریٹ رولز کے مطابق اعظم خان جوابدہ ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سیکریٹریٹ رولز کا ذکر حامد علی شاہ نے یہاں نہیں کیا، ساتھ ہی ان کی جانب سے سپریم کورٹ کی مختلف عدالتی نظریوں کا حوالہ دیا گیا۔وکیل نے بتایا کہ رات 12 بجے تک بیانات قلم بند کیے جاتے ہیں، صبح 8 بجے ملزمان کو 342 کے بیان کے لیے بلا لیا، جب 342 کا بیان ریکارڈ ہو اس دن فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔
اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ 11:30 پر 342 کا بیان ریکارڈ ہونا شروع ہو اور 1 بجے تک جاری رہا، جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ کیا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد دلائل دیے گئے؟جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسفسار کیا کہ 2 کونسلز جنہوں نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ٹرائل کورٹ میں جراح کی کیا انہوں نے کبھی کریمنل کیس لڑا ہے؟ اگر انہوں نے کیسز لڑے ہیں تو تمام کیسز کی لسٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کروا دیں۔
بعد ازاں عمران خان کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاپرواہی کا الزام جو بانی چیئرمین پر لگا ہے یہ الزام ان پر لگتا ہی نہیں، 4 گواہان کے مطابق سائفر کی حفاظت اعظم خان کی ذمہ داری تھی، دو سال تحقیقات ہوئیں اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی ، باقی 8 کاپیاں بھی ایف آئی کی کارروائی کے بعد وآپس ہوئیں، جو 8 کاپیاں لیٹ آئیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جب ثبوت کو ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو 201 لگتی ہے لیکن سائفر تو ان کے پاس موجود ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حامد علی شاہ گزشتہ تین سماعت پر موجود نہیں تھے، مزید ثبوت جمع کروانے کی متفرق درخواست بھی مسترد کی گئی ، حامد علی شاہ ڈیڑھ ماہ عدالت میں دلائل دیتے رہے ہیں ، ثبوت بعد میں لائے گئے اس کا مطلب کے ہم کیس ثابت نہیں کر سکے، عدالت نے کئی سوالات پوچھے شاہ صاحب نے کہا اس کا جواب بعد میں دوں گا اب شاہ صاحب عدالت میں ہی نہیں ہیں۔
اسی دوران سائفر کیس میں پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی عدالت پہنچ گئے۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پہلے دلائل دیتے رہے پھر غائب ہوئے اور نئی درخواست دائر کردی، پراسیکیوشن کو آخر میں یاد آیا کہ نئے دستاویزات پیش کرنا چاہتے ہیں۔اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سب پتا ہے آپ کو سب کہنے کی ضرورت نہیں،سلمان صفدر نے مزید بتایا کہ سائفر پیش کیے بغیر آپ نے دس دس سال سزائیں دی، جب ثابت کرنے کا وقت آیا تو میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، پراسیکیوشن کو پھر اچانک خیال آیا کہ دستاویزات جمع کرنے ہیں، پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ میں کہا تھا آفیشل دستاویزات ہے پیش نہیں کرسکتے۔
سلمان صفدر نے مزید کہا کہ پھر حامد علی شاہ صاحب آئے تو انہوں نے کہا ہم پیش کرسکتے ہیں، پراسیکیوشن کی غلطی کی وجہ سے کیس ریمانڈ بیک ہوا، پراسیکوشن نے دوبارہ غلطی کی پھر کیس ریمانڈ بیک ہوا، جج صاحب نے سوچا کہ میرے کیے کرائے پر یہ پانی پھیر دیں گے، جج نے سوچا کیوں نا وکیل صفائی کو باہر کرکے اپنا وکیل لاؤ؟ پھر جج صاحب نے ہمیں باہر کردیا اور خود سے وکلا مقرر کرکے سزا سنائی۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سائفر اگر گم ہوگیا تو انٹیلیجنس بیورو کو بتانا ہوتا ہے جو کہ نہیں بتایا گیا، غیر ذمہ داری کی بات ہورہی تو یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں بنایا؟ وزارتِ خارجہ دو ماہ بعد صرف گواہی کے لیے اس کیس میں آئے، جس بندے کو گواہ بنایا اس نے خود کہا کہ سائفر گم ہوگیا تھا، وزارتِ خارجہ کو میٹنگ کے لیے اپنی کاپی لانے کا کہا گیا تھا اور وہ اپنی کاپی ساتھ لے آئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں ، سلمان صفدر صاحب آپ اس پر کیا کہنا چاہتے ہیں وہ بتا دیں؟ وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ آج ہمیں اس کیس میں تین ماہ ہو گئے ہیں، ہم بہت اگے نکل گئے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار علی نقوی صاحب کی جانب سے کہا گیا کیس کو میرٹ پر نہیں سنا جا سکتا، ہم آپ سے قانونی طور پر معاونت چاہتے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ٹرائل میں غلطی ہو تو عدالت میرٹ پر نہیں جاسکتی؟ صرف اسی پر جواب دیں۔ساتھ ہی عدالت نے سلمان صفدر کو ایک نقطے پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ انہوں نے دس دن پہلے آکر کہا کہ آپ اس کیس کو ریمانڈ بیک کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ صرف اسی پر بتائیں کہ اگر ٹرائل ٹھیک نہیں تو میرٹ پر نہیں جایا جاسکتا؟ پراسیکوشن نے کہا کہ اگر ٹرائل میں غلطی ہوئی تو سزا معطل کرکے ریمانڈ بیک ہوگا، اس کیس کو ہم دو دفعہ ریمانڈ بیک کر چکے کیا اب تیسری بار ریمانڈ بیک کریں؟ہمیں صرف اس معاملے پر قانونی معاونت چاہیےاسی لیے آپ سے سوال کیا گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ کیا ہم میرٹ پر جاسکتے ہیں ، صرف اتنا سوال ہے؟ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ پہلی بات یہ ہے کہ اس سٹیج پر ریمانڈ بیک کی استدعا بنتی ہی نہیں، پراسیکوشن نے 2011 کے پرانے فیصلے پر انحصار کیا ہے، سپریم کورٹ کے جس فیصلے پر انحصار کیا گیا وہ سول میٹر کا معاملہ ہے، میری بھی اور وکلا کی بھی سزا بہت ہوگئی۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکلا کا نام نہ لیں، کیس پر رہیں، ہم نے کہا بھی کہ فیصلوں کو ہمارے حوالے کریں ہم دیکھ لیں گے۔سلمان صفدر نے کہا کہ سر مجھے تین سے چار منٹ دیں ایک مزے کی ججمنٹ پیش کرتا ہوں۔اسی کے ساتھ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا نے کیس ریمانڈ بیک کرنے کی مخالفت کردی۔بعد ازاں پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے گواہ اعظم خان کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر انہوں نے کہا کہ ملٹری سیکریٹری کو ڈھونڈنے کے لیے بتایا تو جان بوجھ کر تو نہیں ہوا ناں، عدالت نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ ان کو چھوڑیں، کیس آپ کا تھا تو آپ نے ثابت کرنا ہے، جان بوجھ کر سائفر کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کے دلائل پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ حامد علی شاہ کا کیس ہی کچھ اور تھا، شاہ صاحب نے اس کتابچے پر دلائل دیے تھے آپ اعظم خان کے بیان پر دلائل دے رہے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے آفیشل سیکریٹ سے متعلق کتابچہ طلب کرلیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے کتابچے میں جو رولز اینڈ ریگولیشن ہیں وہی ہوں گے ناں؟ ان رولز کے مطابق عمران خان کو سائفر کی کاپی کس نے دی ؟ اس کو آپ رولز کہیں، ریگولیشن کہیں، اس کا عوام کو نہیں پتا تو یہ قانون نہیں، سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ ہے، اپنے کیس پر رہیں ادھر ادھر نہ جائیں۔
کیس کا پس منظر
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کے دور کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو عدالت نے سائفر کیس میں جرم ثابت نہ ہونے کی بنیاد پر انہیں معصوم قرار دیا تھا اور یہ ریمارکس بھی دیئے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔ ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔
اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیراعظم سامنا کر رہے تھے۔ خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی،۔
اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا۔