جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس۔ کارروائی براہ دکھانے کیلئے وفاق کونوٹس جاری
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت 8 مارچ 2021 تک ملتوی کر دی ۔ عدالت عظمیٰ نے کیس کی کارروائی براہ راست نشرکرنے سے متعلق جسٹس فائزعیسیٰ کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ۔
بدھ کوجسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بنچ نے کیس پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آبزرویشن دی کہ لائیو کوریج انتظامی اور پالیسی معاملہ ہے، عدالت کی آبزرویشن پر دلائل دوں گا،سپریم کورٹ آئین کے تحت بنایا گیا ادارہ ہے، اس ادارے کو اختیارات آئین فراہم کرتا ہے، آئین سے بالاتر سپریم کورٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے 17 ججز اگر قانون بنائیں تو 2 ممبرز بنچ اس کو ختم کرسکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت یہاں آپ کو سننے کے لئے ہی بیٹھی ہے، بحث نہ کریں ،کارروائی براہ راست دکھانے پر دلائل دیں، عدالت کے اختیارات کی بات چھوڑدیں،اگر لائیو کوریج کا معاملہ فل کورٹ میں جاتا ہے تو کیا فل کورٹ میں بیٹھیں گے؟۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ کا مجھے پہلے ایجنڈا موصول ہوگا تو پھر فیصلہ کروں گا، چیف جسٹس سپریم جوڈیشنل کونسل کے چیئرمین ہیں، چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ کی صدارت بھی کرتے ہیں ان کے مفادات کا ٹکراو نہیں ہونا چاہئے، کہا جاتا ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہئے، ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے،انصاف ہوتا ہوا ٹی وی کے ذریعے دکھایا جاسکتا ہے،دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے استفسار کیا کہ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹی وی کی ایجاد سے اب تک جو بھی انصاف ہوا وہ دکھائی نہیں دیا؟۔
جسٹس منصور علی شا ہ نے استفسار کیا کہ آپ کی دلیل یہ ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کی جدت سے نظام عدل میں مزید شفافیت آئے گی،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ پاکستان اور سپریم کورٹ کی تاریخ کا سب سے متنازع فیصلہ ذولفقار علی بھٹو کیس کا تھا،ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج نے کتاب میں کہاکہ اکثریتی فیصلہ فوجی حکومت کے دباﺅ میں تھا،دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کھلی عدالت میں سنا گیا تھا، کھلی عدالت کا مطلب تمام پبلک کا موجود ہونا نہیں ہوتا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ میرے دلائل عدالتی کارروائی براہ راست نشر ہونے کے فوائد کے متعلق ہیں، جو لوگ عدالت نہیں آسکتے ان کیلئے لائیو نشریات موثر ثابت ہوگی، چند وکلا کی وجہ سے لوگوں میں وکلا گردی کا لفظ مشہور ہوگیا،میں عدالت کے سامنے ایک پٹیشنر جج کے طور پر موجود ہوں، عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات کا حق مجھے نہیں پاکستان کی عوام کو دیا جائے گا۔
اس دوران جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ صرف ایک وکیل نہیں ہیں، جو بات آپ یہاں کررہے ہیں وہ ایک جج کی آبزرویشن بن جائے گی، اگر آپ کی کہی باتیں فیصلے میں تحریرہوگئیں تو کل کو وکیل آپکے سامنے یہ دلیل کے طور پر پیش کریں گے،آپ نے یہاں بھی بیٹھنا ہے جہاں اس وقت ہم بیٹھے ہیں،کل آپ پر یہ اعتراض آسکتا ہے کہ آپ فلاں کیس پر رائے دے چکے ہیں اس لئے مقدمہ نا سنیں، دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے جسٹس منظور احمد ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میرے بڑے ہیں، میں فوجداری مقدمات میں آپ کو اپنا استاد مانتا ہوں،اس وقت دنیا کے 180 ممالک میں آزادی صحافت کے معاملے پر پاکستان کا نمبر 147 ہے، آزادی صحافت سے متعلق پاکستان کے اعدادوشمار دیکھ کر میرا سرشرم سے جھک گیا،بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان نے آزادی صحافت کے چارٹر پر دستخط کیے تھے،براہ راست عدالتی کارروائی سے ڈسپلن میں بہتری آئے گی۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل سیاسی ہورہے ہیں،دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ وفاق عدالتی کاروائی براہ راست دکھانے کی مخالفت کرتا ہے، نظرثانی کیس میں وزیر قانون خود پیش ہوں گے،بعد ازاںکیس کی سماعت 8 مارچ دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔