نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کون ہیں؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(اظہر تھراج)میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے 24 ویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں ۔شہباز شریف کون ہیں؟ میاں محمد شہباز شریف نے سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب کو شکست دی۔شہباز شریف دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں ۔شہباز شریف پاکستان کے 24ویں منتخب وزیراعظم ہیں ۔نگران وزیراعظموں کو ملا کر مجموعی طور پر 33 ویں وزیراعظم ہیں۔شہباز شریف کون ہیں؟
میاں شہبازشریف 1951 میں لاہور میں پیدا ہوئے،گورنمنٹ کالج سے بی اے کیا۔ پہلی بار 1988 میں پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ 1993 میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربنے۔میاں شہبازشریف1990 میں ایم این اے بھی منتخب ہوئے۔1997 میں پہلی بار اور2008 میں دوسری باروزیراعلیٰ پنجاب بنے۔میاں شہبازشریف نے 2013میں تیسری بار پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھالی ۔2018 ء میں میاں شہبازشریف قومی اسمبلی میں پہلے اپوزیشن لیڈر2022میں پہلی بار وزیراعظم پاکستان بنے۔
لازمی پڑھیں:میاں محمدشہبازشریف دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب
شہباز شریف تین سال قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہے ،گزشتہ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے جب وزیر اعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹایا گیا تو شہبا شریف پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے ۔تاہم مرکز کی سیاست میں وہ کسی حد تک نووارد تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی پہچان صوبہ پنجاب کے حوالے سے زیادہ نمایاں رہی جہاں وہ تین ادوار میں مجموعی طور پر لگ بھگ 13 سال صوبے کے وزیرِاعلٰی رہے ہیں۔
اس دوران وہ کئی مرتبہ تقاریر میں اپنے جذباتی رویے تو کبھی اپنے کام کرنے کے انداز کی وجہ سے سیاسی مخالفین، میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز رہے۔ کبھی انھیں لانگ بوٹ پہنے سیلابی پانی میں کھڑے دیکھا گیا تو کبھی وہ سرکاری اداروں پر ’اچانک چھاپے‘ مارتے نظر آتے تھے۔پنجاب میں شہباز شریف کے مختلف ادوار حکومت میں ان کے سیاسی مخالفین اور اپوزیشن جماعتیں ان کے اس انداز پر تنقید بھی کرتے رہیں لیکن ’شہبا ز سپیڈ‘کا کوئی بھی مقابلہ نہ کرسکا ۔شہبا زشریف کے بعد آنیوالے پنجاب کے منتخب وزرائے اعلیٰ عثمان بزدار،چودھری پرویز الٰہی وہ کام نہ کرسکے جو انہوں نے کیے۔شہباز شریف کی سپیڈ کو مت دی تو ایک نگران وزیر اعلیٰ نے دی جو ’محسن سپیڈ‘کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم پاکستان کو معاشی طور پر ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ۔
بزنس مین سے سیاستدان تک کا سفر
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے تعلیم کے بعد خاندان کا کاروبار سنبھالا۔ 1985 میں شہباز شریف لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر بنے تھے۔کاروبار کو بڑھاوا دینے کے بعد انھوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو پہلی بار شہباز شریف سال 1988 کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے رُکن بنے۔ سال 1990 میں قومی اسمبلی اورسال1993 میں دوبارہ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اسی سال وہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی بنے۔
1997 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے کامیابی سمیٹی تو شہباز شریف پہلی مرتبہ صوبہ پنجاب کے وزیرِاعلٰی منتخب ہوئے۔شہباز شریف نے صوبے میں کئی منصوبے شروع کیے تاہم ان کی حکومت وقت سے پہلے اس وقت ختم ہو گئی جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں مارشل لا نافذ کر دیا اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
مشرف سے ڈیل اور جلا وطنی
سال 2000 میں شریف خاندان کی فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل ہوئی جس کے بعد وہ جلا وطن ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔ شریف فیملی اس ڈیل سے انکار کرتی ہے۔
وزارتِ اعلٰیٰ کی کرسی کا کھیل
سات سال بعد شریف خاندان 2007 میں پاکستان واپس آیا تو اگلے ہی برس ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ شہباز شریف ان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ ان کے خلاف 1998 میں لاہور کے علاقے سبزہ زار میں ماورائے عدالت قتل کے ایک واقعے میں ایف آئی آر درج تھی۔اس ایف آئی آر میں ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے بطور وزیرِ اعلٰی اس پولیس مقابلے کا حکم دیا تھا جس میں چند افراد پولیس کے ہاتھوں مبینہ مقابلے میں مارے گئے تھے۔ شہباز شریف کی غیر موجودگی میں 2003 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان کو نوٹس جاری کیے تھے۔ 2004 میں شہباز شریف نے اس مقدمے میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے پاکستان واپس آنے کی کوشش کی تھی تاہم انھیں ائیرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔
2007 میں شہباز شریف پاکستان واپس آئے تو انھیں اس مقدمے میں عدالت سے ضمانت لینا پڑی تھی تاہم عام انتخابات تک وہ اس مقدمے سے بری نہیں ہوئے اس لیے انھوں نے بعد میں ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ وہ بھکر سے کامیاب ہو کر ایک مرتبہ پھر پنجاب کے وزیرِاعلٰی منتخب ہوئے تاہم اگلے ہی برس سپریم کورٹ نے ان کو نااہل قرار دے دیا۔
شہباز شریف نے اس فیصلے کے خلاف ایک لارجر بینچ میں درخواست دائر کی۔ دو ماہ بعد فیصلہ ان کے حق میں آیا اور وہ دوبارہ وزیرِاعلٰی کی کرسی پر بحال ہو گئے۔ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد شہباز شریف مسلسل دوسری بار اور مجموعی طور پر تیسری بار پنجاب کے وزیرِاعلٰی منتخب ہو گئے۔ ان ہی 10 سال میں ان کے بارے میں ’سخت ایدمنسٹریٹر‘ ہونے کا تاثر سامنے آیا تھا۔
شہباز شریف نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی کئی منصوبے مکمل کیے تاہم ان کے دور کے دو بڑے منصوبے ابتدائی طور پر بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنے۔
انھوں نے لاہور میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے شہر میں میٹرو بس چلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت عمران خان حزبِ اختلاف میں تھے اور انھوں نے اس کو ’جنگلہ بس‘ کا نام دے کر تنقید کا نشانہ بنایا۔اس کے بعد یہی منصوبہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ ملتان میں بھی شروع کیا گیا۔ خود عمران خان کی حکومت والے صوبے خیبرپختونخوا میں بھی ایسا ہی پراجیکٹ شروع کیا گیا۔
اورنج لائن ٹرین چلانے کے منصوبے پر بھی شہباز شریف کو حزبِ اختلاف کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن یہ منصوبہ مکمل ہوکر رہا اور آج کامیابی سے چل رہا ہے۔
صوبے سے مرکز کا سفر
شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے سامنے سیاست میں ہمیشہ ثانوی کردار ادا کرتے رہے۔ جب بھی نواز شریف وزیرِاعظم بنے تو وزیراعلٰی شہباز شریف بنے۔تاہم2017 میں حالات اس وقت بدلے جب نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ پارٹی کی صدارت تو شہباز شریف کے پاس آ گئی لیکن وزارت عظمیٰ شاہد خاقان عباسی کے حصے میں گئی۔2018 کے انتخابات میں شہباز شریف نے پنجاب چھوڑ کر مرکز میں آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور دوسری بڑی جماعت کے لیڈر ہونے کی وجہ سے قائدِ حزبِ اختلاف بھی منتخب ہو گئے۔