آزادی صحافت کا عالمی دن: پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں 60 فیصد اضافہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘ کا آغاز سنہ 1993ء میں ہوا تھا جب اس دن کی باقاعدہ منظوری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دی تھی۔
اس سال ’صحافت اور مجموعی انسانی حقوق کے مابین تعلق‘ اس دن کا خاص موضوع ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کے دوران صحافیوں اور صحافتی اداروں کو درپیش مشکلات، مسائل، دھمکی آمیز رویوں اور زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔
اس دن کے انعقاد کی ایک وجہ معاشرے کو یہ یاد دلانا بھی ہے کہ عوام کو حقائق پر مبنی خبریں فراہم کرنے کیلئے کتنے ہی صحافی اس دنیا سے چلے گئے اور کئی پس دیوار زنداں ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو صحافیوں کیلئے خطرناک اور غیر محفوظ ترین شمار کیے جاتے ہیں۔
وطن عزیز میں اس حوالے سے مزید حقائق کا جائزہ لیں تو ’فریڈم نیٹ ورک پاکستان‘ نامی تنظیم کی جاری کردہ مئی 2022ء سے مارچ 2023ء کی رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں صحافتی تنظیموں اور پیشہ ور صحافیوں کیخلاف دھمکیوں اور حملوں کے 140 واقعات رپورٹ ہوئے۔
آزادی صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ مہینوں سے پاکستان میں صحافت کے شعبے سے جڑے لوگوں کیلئے ماحول مزید خطرناک ہوگیا ہے جہاں آزادی صحافت کی خلاف ورزی کے واقعات کی تعداد 2022ء سے 2023ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق 140 ہے جبکہ 2021ء سے 2022ء کے اعداد و شمار کے مطابق یہی تعداد صرف 86 تھی، ایسے ان واقعات میں سالانہ تقریباً 63 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
’فریڈم نیٹ ورک پاکستان‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس حوالے سے کہا ’یہاں یہ بات انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ 2021ء میں پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جہاں صحافیوں کے تحفظ کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی گئی لیکن اب تک ملک میں صحافیوں کیخلاف ہونے والے متشدد واقعات کے بعد ان قوانین سے کوئی معاونت نہیں لی گئی اور نا ہی ان قوانین کی عملداری نظر آئی‘۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے اعداد و شمار میں رپورٹ ہونیوالے 140 کیسز کی اوسط نکالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ماہانہ 13 کیسز جبکہ ہر تین دن میں کم از کم 1 کیس بنتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق اسلام آباد اس حوالے سے خطرناک ترین شہر رہا جہاں 56 واقعات رپورٹ ہوئے، 35 واقعات کے ساتھ پنجاب دوسرے اور 32 کیسز کے ساتھ سندھ تیسرے نمبر پر رہا۔
اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ٹی وی چینلز سے جڑے صحافی ایسے حملوں کا زیادہ نشانہ بنے 140 میں کم از کم 97 (69 فیصد) واقعات چینلز سے جڑے صحافیوں کیساتھ پیش آئے۔
فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کے دھمکانے یا ایسی دوسری سرگرمیوں میں مبینہ طور پر سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ ملوث رہیں جن کی شرح 140 واقعات میں تقریباً 21 فیصد رہی۔ جبکہ ایسے واقعات میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کی شرح 19 فیصد رہی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین صحافی بھی ایسی کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہیں، اس عرصے میں خواتین بشمول خواجہ سراؤں کیخلاف ایسے 8 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ایک خاتون صحافی سیاسی پارٹی کی ریلی کی کوریج کے دوران جاں بحق بھی ہوئیں۔
پاکستان میں میڈیا سیفٹی پر پچھلے دس پندرہ سال میں بہت کام ہوا ہے۔ پاکستان بھر میں شاید ہی کوئی صحافی ایسا رہ گیا ہو جسے مختلف این جی اوز، صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کی جانب سے آگاہی نہ دی گئی ہو کہ انہوں نے تنازعات کو کیسے رپورٹ کرنا ہے مگر اس کے باوجود گذشتہ سالوں میں پاکستان میں صحافی اتنی بڑی تعداد میں نشانہ بنے۔
پاکستان میں خطرہ اب صرف کارکن صحافیوں کو نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد بلاگرز اور یوٹیوبرز کو بھی ہے۔
بلکہ اب تو بعض ایسے لوگوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے جو ٹوئٹر پر متحرک نظر آتے ہیں اور ریاستی بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کیخلاف غداری اور توہین مذہب کے قانون کے تحت بھی مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں آزادی اظہار رائے ہر آنے والے دن کے ساتھ پابند ہوتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس دن کے حوالے سے خبریں دینے والوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کے مظاہرے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کیخلاف غلط اطلاعات کا پھیلاؤ، نفرت پر مبنی اظہار اور جان لیوا حملے دنیا بھر میں آزادی صحافت کیلئے خطرہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’آزادی صحافت جمہوریت اور انصاف کی بنیاد ہے۔ یہ ہم سب کو ان حقائق سے روشناس کراتی ہے جن کی ہمیں اپنی آراء تشکیل دینے اور سچائی کا اظہار کرنے کیلئے ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم دنیا کے ہر کونے میں آزادی صحافت حملوں کی زد میں ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے آزولے نے اس حوالے سے کہا کہ 2022ء اس پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے مہلک ترین سال تھا۔
گزشتہ برس دنیا بھر میں 86 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا اور ایسے بیشتر واقعات جنگ زدہ علاقوں سے باہر پیش آئے۔ یونیسکو نے کہا ہے کہ ہلاک کیے جانے والے تقریباً نصف صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی ڈیوٹی پر نہیں تھے۔ ان میں بعض پر دوران سفر، پارکنگ کی جگہوں یا دیگر عوامی مقامات پر حملہ کیا گیا جہاں وہ اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی میں مصروف نہیں تھے جبکہ دیگر صحافی ہلاکت کے وقت اپنے گھروں میں موجود تھے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’صحافیوں کیلئے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے حتیٰ کہ جب وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف نہیں ہوتے اس وقت بھی ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔‘
ادارے کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو تحفظ دینے کیلئے گزشتہ پانچ سال میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود 86 فیصد واقعات میں قاتلوں کو سزائیں نہیں ہوئیں۔ صحافیوں کیخلاف جرائم کی کھلی چھوٹ پر قابو پانا ایک اہم عزم ہے جس پر بین الاقوامی تعاون کو مزید متحرک کیا جانا چاہیئے۔
2022ء میں صحافی ہلاکتوں کے علاوہ دیگر طرح کے تشدد سے بھی متاثر ہوئے۔ اس میں ان کی جبری گمشدگی، اغوا، ناجائز حراست، قانونی ہراسانی اور ڈیجیٹل تشدد شامل ہے اور ایسے واقعات میں خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔
یونیسکو کے جائزے میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہتک عزت، سائبر کرائم اور ’جھوٹی خبروں‘ کے انسداد کے قوانین کا بطور ہتھیار استعمال آزادیء اظہار کو محدود کرنے اور صحافیوں کے کام کے ماحول کو مشکل بنانے کیلئے استعمال ہورہا ہے۔