کسی کی بس میں اپنا سامان دیکر خوش نا ہوں یہ جملہ قریب موجود ایک کولیگ نے اسوقت بولا جب سارا نیوز روم پاکستان کے پہلے سیٹیلائیٹ کے منظر کو دیکھ کر پر جوش انداز میں ڈیسک بجا رہا تھا، قریب کھڑے ایک اور ساتھی نے جملہ کسا کہ آج ’قوم یوتھ ‘ سوگ منائے گی، اس بات کا کہ یہ کام عمران خان کے دور میں کیوں نہیں ہوا اور اگر اُس دور میں ہوتا تو چین کے راکٹ اور پاکستان کے سیٹیلائیٹ کے فضائل و مرا تب بیان کیے جاتے۔
ایسا کیوں ہے کہ ہم پاکستان کی اجتماعی کامیبایوں کو بھی اپنی اپنی سیاست کی عینک سے دیکھتے ہیں کیوں نہیں سوچ لیتے کہ یہ پاکستان کا سیٹیلائیٹ ہے جو چین کی مدد سے دنیا میں نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے اڑان بھر رہا ہے، یہ3 ماہ کا مشن ہے جس میں یہ سیٹیلائیٹ چاند کے مدار میں 5 روز بعد پہنچے گا اور جنوب قطبی حصے سے پانی اور چٹانوں کی گرد جمع کرائے گا جس سے علم ہوسکے گا کہ چاند کے اس حصے پر جو زمین سے نظر نہیں آ تا میں پانی موجود ہے یا نہیں۔
دنیا بھر کی نظریں اس مشن پر ہیں اور یہ کسی ایک کی کامیابی تو نہیں ہے ، اگست 2023 میں بھارتی مشن جسے چندریان کا نام دیا گیا تھا جب حلا کے لیے روازنہ ہوا تھا تو مجھ سمیت محب وطن پاکستانیوں کے چہرے بجھ گئے تھے سب غمگین اور اپنے سسٹم کو کوس رہے تھے کسی کو فوج میں خرابی نظر آتی تھی تو کوئی سیاسی نظام پر انگلیاں اٹھا رہا تھا، بھارتی جشن تھا اور پاکستان میں آٹے کی کمی کے میم بنائے جارہے تھے، بیرون ملک بیٹھے غدار پاکستانی اپنی اپنی ڈیجیٹل سپیس کے ذریعے مزید جلتی پہ تیل کا کام کررہے تھے ۔
یہ بھی پڑھیں : پی ٹی آئی کا وائٹ پیپر اور کالے کرتوت
کوئی تو تھا جو ہم پر ہنس رہا ہوگا کوئی تو تھا جو جانتا تھا کہ پاکستان صرف خلائی مشن ہی مکمل نہیں کرے گا بلکہ نئی تاریخ رقم کرے گا، کوئی تو تھا جس کی لیبارٹری میں وہ سیٹلائیٹ تیار کیا جارہا تھا، جو اس سے قبل دنیا کی کسی لیبارٹری میں تیار ہی نہیں کیا گیا، جی ہاں بھارت دنیا کا چوتھا ملک ہے جس نے چاند کی سطح پر اپنا مشن اتارا تھا بڑی کامیابی تھی، ہم آٹے کی لائن میں تھے اور بھارت فضاوں کو مسحر کر رہا تھا، یہاں عید کے چاند کو متنازعہ بنا رہا تھا اور بھارتی ترنگا چاند کی سطح پر لہرا رہا تھا۔
بھارت سے پہلے امریکہ ، روس ، اور چین اپنے مشن کامیابی سے چاند کی سطح پر اتار چکے تھے لیکن پاکستانیوں کی تو بات ہی الگ ہے یہ صحیح ہے کہ ہم نے اپنا راکٹ فضا میں جانے کے لیے استعمال نہیں کیا کیوں یہ نہیں کہ ٹیکنالوجی کا حصول مشکل ہے، اس لیے کہ ہم بھارت کیطرح مضبوط معیشت نہیں رکھتے ہمارے اجتماعی فیصلے سیاست کی نظر ہوجاتے ہیں، ہم قیدی نمبر 804 کے جوتا گلے میں ڈال کر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ جو مشن چین کی مدد سے گیا ہے وہ ایک دن میں تو تیار نہیں ہوگیا سب حکومتوں کا کچھ نا کچھ حصہ اس میں ضرور ہے، یہ کسی ایک کی کامیابی نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حسد و بغض کے مارے لوگ آج بھی اس مشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ صرف سپارکو کی کامیابی نہیں ہم سب کی اجتماعی کامیابی ہے ، سب اس پر خوش ہیں اگر کوئی خوش نہیں تو وہ پاکستان کے دشمن ہیں یہ وہی ہیں جو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو دھماکے نا کرنے کا مشورہ دے رہے تھے لیکن پاکستان نے چاغی میں دھماکے کر کے خود کو پہلا اسلامی اور دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت بن گیا، غور کریں اس لفط پر دنیا کی جس کے کُل ممالک کی تعداد 200 سے زائد ہے اور اب چاند پر مشن بھیجنے والا پانچواں ملک اور جنوبی سطح تک جانے والا پہلا ملک بن گیا ہے، یہ وہ ملک ہے جس کے نظام کو باہر بیٹھے غدار وطن دنیا کا کمزورترین اور بیکاری ملک کہتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں : پنجاب کی گڈ گورننس ! انا للہ وانا الیہ راجعون
اس مشن پر جو لانچ تو ہوگیا ہے جس نے 3 سے 6 ماہ میں مکمل ہونا ہے ہم سب دعا گو ہیں کہ یہ کامیاب ہو کہ پاکستان ہی پوری اسلامی دنیا کی عسکری و حلائی قوت کا مرکز و محور ہے، سب مبارکباد کے مستحق ہیں موجودہ حکمران بھی اور سابق حکمران بھی انسٹیوٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کے تمام سائنسدان بھی جنہوں نے آئی کیوب قمر (جو بلا شبہ رشکِ قمر کہلانے کا مستحق ہے) کو اس قابل بنایا، تمام عسکری اور سیاسی ،عدالتی و صحافتی شخصیات بھی مبارکباد کے مستحق ہیں بلاشبہ پورا پاکستان اس مشن پر خوش ہے، لیکن جو جل رہے ہیں اللہ پاک انہیں ہمیشہ پاکستان کی ہر کامیابی پر جلتے رہنے کی توفیق دیئے رکھے، آمین ثم آمین۔
یہ بھی پڑھیں : مریم نواز ! مزدور دادا کی ملکہ پوتی ،25 کروڑ کا اشتہار