لمبی جدائی کی تان اُٹھانے والی ریشماں کوبچھڑے 11 برس بیت گئے
انفرادی گانوں کے علاوہ کئی گلوکاروں کےساتھ بھی آواز کا جادو جگایا،بے شُمار گیت زبان زدِخاص وعام ہوئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) بلبل صحرا ریشماں کوبچھڑے گیارہ برس بیت گئے تاہم ان کی مدھرآوازآج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے،انہوں نے اپنی منفرد آواز سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں نام کمایا۔
ریشماں کہنے کو توایک لوک گلوکارہ تھیں لیکن انہیں سُر،لے اور تال کی اس قدر سوجھ بوجھ تھی کہ بڑے بڑے موسیقار اور گلوکار بھی حیران رہ جاتے تھے کہ انہوں نے یہ تعلیم کہاں سے حاصل کرلی کیونکہ وہ بالکل ان پڑھ تھیں،کس نے سوچاہوگا کہ بیکانیر راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک پکھی واس گھرانے میں آنکھ کھولنے والی بچّی ایک دن برصغیرکی عظیم ترین گلوکاراؤں کی صف میں شامل ہوجائے گی۔
ریشماں کے والد حاجی مشتاق مویشیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا کرتے تھے،ریشماں کواپنی صحیح تاریخ پیدائش تو یاد نہیں تھی بس یہ یاد تھا کہ جب ان کا خاندان 1947ء میں تقسیم ہندوستان کے وقت وہاں سے ہجرت کر کے کراچی آیا تو وہ چند ماہ کی تھیں۔
ریشماں کے خاندان کی خواتین شادی بیاہ پر گڑوی کے ساتھ گایا کرتی تھیں،ریشماں نے بھی جیسے ہی ہوش سنبھالا، گڑوی کے ساتھ اپنی آواز ملانا شروع کردی،راجستھانی فوک گیت انہوں نے اپنی ہم جولیوں کے ساتھ مل کرچھوٹی عمر میں ہی گانا شروع کر دیئے تھے،اولیائے کرام سے انہیں اوران کے خاندان کو خاص عقیدت تھی اورجب تک ان کی صحت نے اجازت دی،وہ اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری دیتی رہیں۔
ریشماں سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر چھوٹی عمر سے ہی حاضری دیتی آئی تھیں،وہاں عرس کے موقع پر ان کی گائی ہوئی دھمالیں حاضرین پر وجد کی کیفیّت طاری کر دیتی تھیں،وہ بارہ سال کی عمر میں سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے عرس کے موقع پر دھمال گارہی تھیں کہ ریڈیو پاکستان کے مردم شناس پروڈیوسر سلیم گیلانی بھی وہاں موجود تھے اور انہوں نے”لعل میری رکھ پت رکھیو بلا جھولے لعلن“ سُنی تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے،انہوں نے ریشماں کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی کراچی آنا ہو تو اس پتے پر ضرور آنا۔
کچھ عرصے بعد ریشماں کاجب کراچی جانا ہوا تو وہ پوچھتے پچھاتے ریڈیو پاکستان کراچی پہنچ گئیں جہاں سلیم گیلانی نے پہلی بارانہیں گائیکی کا موقع دیا،ریشماں کی آواز جب پہلی بارفضاؤں میں بکھری توہرکوئی ان کی آواز کے سحر میں ڈوب گیا کیونکہ ان کی آواز میں صحرا کی اُداسی اوردرد تھا۔
ریشماں نے کئی پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت گائے اور دونوں ممالک میں خوب داد سمیٹی،انہوں نے اپنی زندگی میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سمیت کئی ایوارڈ اور اعزازات اپنے نام کیے۔
ریشماں نے ریڈیوپاکستان پر"لعل میری پَت رکھیو بلاجھولے“ریکارڈ کروائی توبہت جلداس دھمال کا چہارسو چرچا ہو گیا،ریڈیوپاکستان پرریشماں کی آواز کابہت چرچا تھا لیکن کسی نے ان کی شکل نہیں دیکھی تھی،جب پاکستان ٹیلی ویژن پر 60ء کی دہائی میں ریشماں نے پہلی بار گائیکی کا مظاہرہ کیا تو ان کی شُہرت کو مزید پَرلگ گئے۔
ریشماں نے انفرادی گانوں کے ساتھ ساتھ کئی گلوکاروں کے ساتھ بھی اپنی آواز کا جادو جگایا،ان کے گائے ہوئے بے شُمار گیت اوردھمالیں زبان زدِخاص وعام ہوئیں جن میں لمبی جدائی،دمادم مَست قلندر،نئیں لگدا دل میرا، سُن چرکھے دی مٹّھی مٹّھی کوک،میں چوری چوری تیرے نال لالیاں اَکھاں،میری ہم جولیاں،نہ دل دیندی بے دردی نوں،گڈّی آ گئی ٹیشن تے، گوریے میں جانا پردیس اور دیگر شامل ہیں۔
ریشماں کوسرحدپاربھی بہت پسندکیاجاتاتھا،کہاجاتاہے کہ ایک بار وہ بھارت میں لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کے گھر پر منعقد ہونے والی ایک محفل میں گارہی تھیں کہ وہاں ہدایت کار سبھاش گئی بھی موجود تھے،وہ ریشماں کی آواز کے دیوانے ہوگئے اور ریشماں کا گانا ”لمبی جدائی“ اپنی فلم ”ہیرو“ میں شامل کرلیا جو وہاں بھی بے حد مقبول ہوا،اس کے بعدریشماں بھارت میں بھی مقبول ترین گلوکاراؤں کی فہرست میں شامل ہوگئیں،راج کپور کی فلم ”بوبی“کے لئے ریشماں کا گایا ہوا گانا ”اکھیاں نوں رہن دے“ لتامنگیشکرنے گایا تھا۔
بھارت میں ریشماں کے پرستاروں میں سیاستدان بھی شامل تھے،اندراگاندھی جب بھارت کی وزیراعظم تھیں توانہوں نے خود ریشماں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی،اس ملاقات کے دوران ریشماں نے بھارتی وزیراعظم سے شکوہ کیا کہ راجستھان میں ان کے آبائی علاقے تک جانے والی سڑک ابھی تک کچّی ہے جس پر اندرا گاندھی نے فوری طور پرپختہ سڑک تعمیر کرنے کا حکم دیدیا تھا،اندرا گاندھی کی طرف سے ریشماں کو بھارت میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی بھی پیش کش کی گئی مگر ریشماں نے پیشکش یہ کہہ کر مُسترد کردی کہ پاکستان نے مجھے عزّت اور پہچان دی ہے اس لئے میں اس ملک کو چھوڑنے کاسوچ بھی نہیں سکتی۔
ریشماں 3 نومبر 2013 کو انتقال کر گئی تھیں لیکن ان کی گائیکی کا ورثہ آج بھی زندہ ہے۔