ایک اور پی ڈی ایم تیار ؟کون کون سی پارٹی شامل؟ایک اور ڈیل ،تہلکہ خیزانکشافات
Stay tuned with 24 News HD Android App
آج کے پاکستان میں بیانیے کی سیاست کا آغاز نواز شریف نے کیا تھا ۔اور آج مسلم لیگ ن کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کی چار برس بعد وطن واپسی کو موثر الیکشن کمپئن میں بدلنے کے بیانیے کی متلاشی ہے۔آج سے محض چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی مضبوط ترین جماعت تھی لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ قصہ ماضی ہے۔مسلم لیگ ن نے گزشتہ روز شاہدرہ میں نواز شریف کی واپسی اور ان کا بھرپوراستقبال کرنے کے لیے پہلے کنونشن کا انعقاد کر چکی ہے۔گو کہ یہ ایک کنونشن تھا جس میں عموما ًعوام کم تعداد میں ہی شامل ہوتی ہے ۔ لیکن شاہدرہ مسلم لیگ ن کا گڑھ تھا اس لحاظ سے سب کی نظریں اس اجتماع پر مرکوز تھی ۔کل ہونے والا یہ جلسہ کسی بھی طور پر متاثر کن نہیں تھا۔اس جلسے کی اہمیت اس لحاظ سے بھی تھی کہ اس کو کرنے کا واحد مقصد عوام کو موبلائز کرنا تاکہ قائد ن لیگ کے استقبال کو تاریخی بنایا جا سکے ۔ لیکن فی الحال مسلم لیگ ن اس مین ناکام نظر آتی ہے۔جب سے نواز شریف کی واپسی کی تاریخ طے ہوئی تب سے مسلم لیگ ن ایک موثر بیانیے کی تلاش اور نواز شریف کی واپسی کو ایک گیم چینجر کے طور پر بیان کر رہی ہے۔ لیکن اسی نواز شریف کی واپسی پر ان کے استقبال کی حکمت عملی بنانے مین مکمل ناکام ہے۔16 ماہ کی حکومت نے مسلم لیگ ن کو بہت زیادہ مشکلات مین ڈال دیا ہے جس کو ڈیفنڈ کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار ہو رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلے نواز شریف کا استقبال ائیر پورٹ پر کرنے اور دس لاکھ لوگ لانے کی بات کی گئی لیکن آہستہ آہستہ یہ بیانات مینار پاکستان میں جلسے کرنے میں تبدیل ہوئے ۔اب مینار پاکستان میں ایک بڑا پاور شو کرنا بھی مسلم لیگ ن کے لئے ایک درد سر بن چکا ہے۔
پروگرام’10تک ‘میں میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کی تایخ 21 اکتوبر طے ہے جس کے لیے ٹکٹ تک کنفرم ہو چکی ہے۔ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ نواز شریف 21 تاریخ کو اتحاد ائیر لائنز کی پرواز ای وائی 243 علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر شام 6 بجکر 25 منٹ پر لینڈ کرے گی،مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ نواز شریف کی واپسی کو تاریخی بنایا جائے تاکہ الیکشن مہم چلانے میں آسانی ہو لیکن مسلم لیگ ن مینار پاکستان میں بھی ایک موثر جلسہ کرنے کے لیے بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہے اور یہ مشکلا ت اس قدر زیادہ ہے کہ مسلم لیگ کو کارکن جمع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آرہا ہے۔استقبال کے لیے ہر روز میٹنگز ہو رہی ہے اور اس میٹنگز میں عہیداروں کو بعض اوقات انعامات اور نوازشات کا لالچ دیا جا رہا ہے اور کبھی کبھار انہیں مختلف ایپس کے ذریعے ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی کسی میٹنگ میں موثر تعداد میں کارکن لانے کے لیے کاروں کی بجائے مزدے کی سواری کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو کبھی قائدین کی جانب سے یونین کونسل کی سطح تک مخصوص تعداد میں بندے لانے کا ٹارگٹ دیا جا رہا ہے۔یہ سارے مشورے ،انعامات اور ٹارگٹس کیا ہے؟
ضرور پڑھیں:سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر سماعت شروع
یہاں سوال یہ ہے کہ سیاسی میدان میں مضبوط حریف کے تقریبا آوٹ ہونے کے بعد بھی مسلم لیگ ن اتنی مشکلات کا شکار کیوں ہے کہ اسے عوامی حمایت کے لیے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں ۔ یہاں سوال یہ بھی کیا کہ مسلم لیگ ن کا عدم اعتماد کے بعد حکومت لینا ایک سنگین غلطی ثابت ہو رہی ہے ۔جو اسے اگلے الیکشن میں عوامی ہمایت سے کوسوں دور لے گئی ہے اور اسی ڈر سے اب وہ سانحہ نو مئی کی آڑ لیکر اپنے مخالف جماعت کو الیکشن سے آوٹ کرنے کی بات کر رہی ہے۔یہاں سوال یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاست میں بیانیے کی اصطلاح متعارف کرانی والی جماعت کے پاس عوام کو قائل کرنے کے لیے کوئی موثر بیانیہ ہے نہ ہی کارکردگی بیان کرنے کے لیے کچھ موجود ہے تو ایسے میں وہ عوام کو کیسے مائل کریں گے۔مسلم لیگ ن اس بیانیے کو پہلے ہی سرنڈر کر چکی ہے جس نے نواز شریف اور مریم نواز کو 2017 سے لیکر اب تک سیاست میں زندہ رکھا اور دوام بخشا۔گزشتہ دس روز کے دوران مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے ایک کے بعد ایک بیانیہ دیا گیا لیکن اگلے ہی دن اس بیانیے سے بیک فٹ ہونا پڑا۔کیا ایک اور پی ڈی ایم تیار ہورہی ہے؟کون کون سی پارٹی شامل ہوگی؟لندن میٹنگ سے مولانا فضل الرحمان بے خبر۔ایک اور ڈیل ،تہلکہ انکشافات سے بھرپور دیکھیے یہ ویڈیو