عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا حکومت پر الزام

Oct 03, 2023 | 10:32:AM

Read more!

چئیرمین تحریک انصاف کی اڈیالہ جیل میں منتقلی کو شروع میں کسی ریلیف سے تعبیر کیا جا رہا تھا لیکن موجودہ حالات اور ان کے کیسز کو نمٹانے کی رفتار سے محسوس ہو رہا ہے کہ انہیں ریلیف نہیں بلکہ ان کے مقدمات کی سپیڈ میں اضافے کرنے کے لیے انہیں اڈیالہ منتقل کیا گیا ہے کیونکہ سائفر کیس چئیرمین پی ٹی آئی پر بننے والے کیسز میں سب سے زیادہ مضبوط کیس ہے جس میں انہیں دو برس سے لیکر 14 برس تک سزا ہو سکتی ہے۔

پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اس کیس میں دوسرے شریک ملزم شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل میں تھے اور اسے قبل چئیرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے اس لیے کیس کی سماعت انتظامی طور پر کچھ مشکلات کا شکار تھی لیکن اب دونوں کی ایک کیس میں ایک ساتھ پیشی ممکن ہو سکی ہے۔آج سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت کی ان کیمرا کارروائی کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ دوران سماعت، ایف آئی اے پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈوکیٹ نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کو پبلک نہیں کیا جا سکتا، ۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ٹرائل کا معاملہ الگ ہے، کیا ضمانت کی سماعت بھی اِن کیمرہ ہو سکتی ہے؟۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کو پبلک نہیں کیا جاسکتا، آج ہم ایک درخواست ٹرائل کورٹ میں دائر کر رہے ہیں، درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران کچھ اہم دستاویزات اور بیانات عدالت کے روبرو رکھنے ہیں، کچھ ملکوں کے بیانات بھی ریکارڈ پر لانے ہیں، یہ کارروائی پبلک ہوگی تو کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ عدالت درخواست ضمانت پر فیصلہ لکھے گی تو وہ تو پبلک ہوگا، جب فیصلہ پبلک ہوگا تو پھر سماعت اِن کیمرا کیوں کی جائے، ٹرائل کورٹ میں بیان ہونا ہے وہ ٹرائل کورٹ کا اختیار ہے کہ اِن کیمرا کرتی ہے یا نہیں۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سائفر سے متعلق کوئی کوڈ آف کنڈکٹ یا ایس او پی ہے تو بتا دیں، میں نے آج تک ان کیمرا کی درخواست منظور نہیں کی لیکن آپ دلائل دیں، دریں اثنا ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے اور سائفر کے کوڈ آف کنڈکٹ سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ بیرون ممالک پاکستان کے سفارت خانوں سے کوڈڈ سائفر بھیجے جاتے ہیں، دفتر خارجہ میں سائفر کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ تمام کوڈز یونیورسل ہوتے ہیں؟ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو سائفر کاپی بھیجی جاتی ہے، سائفر نے تمام جگہوں سے ہو کر واپس دفتر خارجہ آنا ہوتا ہے، دفتر خارجہ میں پہنچنے پر ڈی کوڈ کیے گئے سائفر کو ختم کر دیا جاتا ہے، صرف اصل سائفر دفتر خارجہ میں موجود رہتا ہے۔ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی کی اِن کیمرا سماعت کی مخالفت کی،اور کہا کہ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں اپنے دلائل میں سائفر کے کوڈ میں جاؤں گا ہی نہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ میں دلائل دیے ایف آئی اے نے درخواست نہیں دی، اب یہ اس مرحلے پر درخواست دے رہے ہیں، عوام کو علم ہے کہ یہ کیا کیس ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کو پبلک کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا، پراسیکیوشن کی سماعت اِن کیمرا کرنے کی درخواست ہی اُس سے متضاد ہے۔ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ آج سرکاری وکلا نے مجھے بہت زبردست گراؤنڈ دیا ہے، سرکاری وکلا کہہ رہے ہیں کہ پبلک کو کچھ پتا نہ چلے، ایف آئی اے کی درخواست ہے کہ سماعت اِن کیمرا کریں کیونکہ کچھ پبلک نہ ہو، اگر سائفر پہلے پبلک ہو چکا تو پراسیکیوشن اب کس چیز کو پبلک نہیں ہونے دینا چاہتی۔ انہوں نے کہا کہ ضمانت کی درخواست پر سماعت اِن کیمرا نہیں کی جا سکتی، ٹرائل کورٹ میں سماعت اِن کیمرا کرنے کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے، اگر کوئی حساس بات ہو تو صرف وہ سماعت اِن چیمبر کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن درخواست ضمانت پر اِن کیمرا سماعت کی استدعا کر رہی ہے، ہم تو آج تیار ہو کر آئے تھے کہ سماعت کی لائیو اسٹریمنگ ہو گی۔اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا عندیہ دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لائیو اسٹریمنگ ہو گی ضرور ہو گی، ہم نے یہ معاملہ فُل کورٹ کے سامنے رکھا ہے۔ جس کے بعد یف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کی اِن کیمرا سماعت کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سماعت اِن کیمرا ہو گی یا اوپن کورٹ میں، کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تاریخ دیں گے۔سلمان صفدر نے کہا کہ استدعا ہے کہ آئندہ سماعت ایک، دو روز میں ہی رکھ لی جائے، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس کیس سماعت کے لیے مقرر کر دے گا۔ یہ کیس چئیرمین پی ٹی آئی کی ضمانت کا تھا جبکہ دوسری طرف مرکزی کیس میں کارروائی مسلسل جاری ہے۔ کیونکہ آج آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے سائفر کیس میں چئیرمین تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ جج نے کہا کہ گواہوں کے بیانات ملزمان کو نوٹس جاری کرنے کے لیے کافی ہیں، اس لیےدونوں ملزمان کو 4 اکتوبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔سائفر کیس میں ضمانت نہ ہونے اور ساتھ ہی اس کیس کی برق رفتار ٹرائل پر پی ٹی آئی اور چئیرمین تحریک انصاف کے فیملی میں خاصی تسویش پائی جاتی ہے۔وہ اکثر عدالت کے نظام پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔آج چئیرمین تحریک انصاف کی ہمیشرہ علیمہ خان بھی کیس کی سماعت سسننے عدالت موجود تھی ۔سماعت کے بعد وہ خاصی مایوس نظر آئی ۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ جلد چئیرمین تحریک انصاف کو باہر نہیں آنے دے گے۔ان کی آزادی کے لیے ہمیں حقیقی جہد و جہد کرنا ہوگی۔

دوسری جانب چئیرمین پی ٹی آئی جب سے گرفتار ہوئے پی ٹی آئی کی جانب سے ہر دوسرے دن ان کی جان کو لیکر خطرات کا بیانیہ بنایا جاتا ہے اور انہیں جیل میں مختلف سہولیات دینےکے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں ۔اسی طرح کے خدشات اور مطالبات پر مبنی ایک درخواست چئیرمین تحریک انصاف کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ خدشہ ہے کہ میرے شوہر کو جیل میں کھانے کے ذریعے زہر دیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں قیدیوں کو دی گئی سہولت کے برعکس چئیرمین پی ٹی آئی کو گھر کے کھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔درخواست مین بشریٰ بی بی کا مزید کہنا تھا کہ کہ ملاوٹ زدہ خوراک میرے شوہر کی زندگی کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔انہیں جیل مینوئل کے مطابق وہ سہولیات بھی نہیں دی جا رہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ میرے شوہر کے ساتھ جیل میں غیر انسانی سلوک آئین کے آرٹیکل 9 اور14 کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ جیل میں سہولیات کی فراہمی سے متعلق عدالتی حکم پر عمل درآمد کرایا جائے۔ ذمہ دار میڈیکل افسر کے ذریعے خالص خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں واک اور ایکرسائز کی سہولت فراہم کی جائے۔

مزیدخبریں