(امانت گشکوری)سپریم کورٹ کے ججز کے دلچسپ ریمارکس، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دن سپریم کورٹ کسی فیصلے کو درست دوسرے دن غلط بھی کہہ سکتی ہے،آپ کہیں سپریم کورٹ نے غلط کیا تھا،یا پھر یہ کہیں گے کہ سپریم کورٹ جنگل کا بادشاہ ہے جو چاہے کرے،اس طرح تو ملک آئین پر نہیں بلکہ ججز کے فیصلوں کے ذریعے بنائے گئے قوانین پر چلے گا۔جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے،پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران ججز نے ریمارکس دئیے ۔ جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے پوچھا کہ آپ اب تک درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دے رہے ہیں؟صرف یہ بتا دیں کہ کون کون سی دفعات سے آپ متفق ہیں یا مخالف ہیں۔
وکیل حسن عرفان بولے کہ آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہو گا تو نوٹس ہو سکے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں جس میں آئین کے پہلے حصے میں لکھے بنیادی حقوق آتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ اس ایکٹ کے تحت عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا؟
وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ چیف جسٹس اور ججز کمیٹی کو صوابدیدی اختیار مل گیا ہے کہ وہ میرے حقوق کی خلاف ورزی پر نوٹس لیں یا نہیں،
جسٹس اطہر من اللہ نے پھر پوچھا کہ کیا جب ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس تھا تو انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی تھی؟
ایکٹ کے سیکشن تین کے تحت کیا کمیٹی طے کرے گی کہ ازخود نوٹس لینا ہے یا نہیں؟
ضرورپڑھیں:مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،اس عدالت نے مارشل لاء کو قانونی راستے دئیے: چیف جسٹس
جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے،پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے ہم بہت آگے نکل چکے ہیں، ایک جانب کی دلیل ہے کہ بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں دوسری جانب کا ہے کہ نہیں ہو رہے،انصاف تک رسائی کیلئے بنیادی شرط آزاد عدلیہ بھی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر قانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہے تو فل کورٹ کیخلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہوگا؟کیا فل کورٹ کیخلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟اپیل کا حق برقرار رکھنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ فل کورٹ یا لارجر بنچ کا راستہ بلاک ہو گیا۔
وکیل حسن عرفان بولے کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا انصاف تک رسائی کیلئے قانون سازی نہیں ہوسکتی؟ درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ میرا موکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب مارشل لاء لگتے ہیں تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں،اس کمرہ عدالت میں( ریٹائرڈ چیف جسٹسز) کی اتنی تصاویر لگی ہیں جو مارشل لاء میں حلف بھول جاتے ہیں،جب پارلیمنٹ قانون سازی کرے تو سب کو مسئلہ ہوجاتا ہے،وکیل حسن عرفان بولے کہ صدر، وزیراعظم اور ججز آئین کا تحفظ کرنے کا حلف لیتے ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ ججز کا حلف پڑھ کر سنائیں،وکیل حسن عرفان نے ججز کا حلف پڑھ کر سنایا ۔وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حلف میں آئین کیساتھ قانون کا بھی ذکر ہے اسے مدنظر رکھیں،مارشل لاء کیخلاف بھی درخواستیں لایا کریں وہاں کیوں نہیں آتے؟پارلیمنٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار بڑھا دیا گیا، کیا آپ کا موقف یہ ہے اپیل کا حق نہ ہو بس سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ حتمی ہو۔,وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ میرا یہ موقف نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کہتی ہے کہ انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی،ماضی میں جائیں وکلاء سپریم کورٹ کے 184 تین کے بے دریغ استعمال پر بہت تنقید کرتے رہے،سپریم کورٹ کے 184 تین کے استعمال سے ماضی میں لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے،آپ کے بطور شہری اس ایکٹ سے کون سے حقوق متاثر ہوئے؟نظرثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟۔اس عدالت نے کئی بار مارشل لاء کی توثیق کی ہے۔
وکیل حسن عرفان بولے اس سے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہوگا کل کو سماجی و معاشی اثرات مرتب ہوں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ انصاف تک رسائی کے حق کو پارلیمنٹ کیوں نہیں بدل سکتی؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر پارلیمنٹ کہتی ہے کہ مارشل لاء کی توثیق غلط ہے تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہیئے؟
جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ توہین عدالت کے خلاف بھی کیا آئین کے آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں ہونا چاہئے تھا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ سوال یہ ہے کہ اپیل کا حق دینے اختیار کس کا ہے،جب آئین نے آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق نہیں دیا تو یہ آئینی منشاء نہیں تھی، اگر یہ منشاء اب ہے کہ آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق دیا جائے تو اس کا واحد حل آئینی ترمیم کے ذریعے ہے،ایسے تو پارلیمنٹ ایک قانون کے ذریعے ایک کے بجائے چار اپیلوں کا حق دے دے۔
جسٹس شاہد وحید بولے کہ اگر پارلیمنٹ کی نیت ٹھیک ہو لیکن اس قانون سازی میں اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو اس قانون کو درست قرار دیں گے؟جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 191 کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر پر قانون سازی کر سکتی ہے؟
ایڈووکیٹ حسن عرفان نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ آپ سے سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 191 کے ساتھ اگر آرٹیکل 58 کو ملا کر پڑھیں تو کس طرح پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا سکتی ہے،جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 191 میں استعمال لفظ قانون کا مطلب پارلیمان کا اختیار ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ سپریم کورٹ رولز خود بنا سکتی ہے جب آئین اور اس وقت کے رائج قانون میں پابندی نہ ہو،وکیل حسن عرفان نے کہا ہے کہ آئین کی ٹکڑوں میں تشریح کی گئی تو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکیں گے،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسجر رولز بنا سکتی ہے لیکن جو آئین و قانون کے تحت ہوں،آئین و قانون تو پارلیمنٹ بناتی ہے،سپریم کورٹ آئین و قانون سے باہر ضوابط تو نہیں بنا سکتی۔
وکیل حسن عرفان نے کہا ہے کہ یہ تو آپ ججز کی اکثریت نے فیصلہ کرنا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ تو ہم فیصلہ کر لیں گے آپ بیٹھ جائیں،اصلاح کیلئے غلطی تسلیم کرنا ضروری ہے،ایک دن سپریم کورٹ کسی فیصلے کو درست دوسرے دن غلط بھی کہہ سکتی ہے،آپ کہیں سپریم کورٹ نے غلط کیا تھا،یا پھر یہ کہیں گے کہ سپریم کورٹ جنگل کا بادشاہ ہے جو چاہے کرے،اس طرح تو ملک آئین پر نہیں بلکہ ججز کے فیصلوں کے ذریعے بنائے گئے قوانین پر چلے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ وکیل صاحب آپ سے جو کہا جا رہا ہے آپ آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں،آرٹیکل 191 کا اہم آئینی سوال ہمارے سامنے ہے،کیا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اہل بناتا ہے؟ پلیز اس سوال کا جواب دے دیں،آرٹیکل 191 میں سبجیکٹ ٹو لاء کا مطلب بتا دیجیے، وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 میں تو ابہام ہے یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے، جسٹس منیب اختر بولے کہ ایکٹ کے سیکشن 2 اور سپریم کورٹ رولز میں تضاد آچکا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی سے بنا ہوا تضاد کیسے حل ہوگا؟ کیا 1956 آئین کے آرٹیکل 177 اور 1973 کے آرٹیکل 191 میں فرق ہے؟ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ باز محمد کاکڑ کیس میں عدالت کہہ چکی کہ آئین کے تحت بنے رولز کو سادہ قانونی سازی سے ختم نہیں کیا جا سکتا،جسٹس جمال خان بولے کہ کیا آئین کی کوئی شق پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکتی ہے،قانون بنانا پارلیمنٹ کا ہی کام ہے۔
وکیل حسن عرفان آئین پارلیمنٹ کو ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار نہیں دیتا،چیف جسٹس نے وکیل حسن عرفان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہاں اور ناں کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے،
جسٹس اطہر من اللہ بولے کیا دنیا میں پارلیمنٹ کے قانون سے بالا کوئی رولز ہو سکتے ہیں؟دنیا کی کوئی مثال ہو تو دے دیجیے گا،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ رولز آرٹیکل 191 کے تحت غیر آئینی نہیں ہو سکتے، وکیل حسن عرفان بولے کہ اگر پارلیمنٹ پر سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کی پابندی نہیں تو اجازت بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہ سپریم کورٹ نے کئی مارشل لاز کی توثیق کی،پھر ایک فیصلہ آیا کہ ماضی کے تمام ایسے عدالتی فیصلے غلط ہیں،آپ کہہ رہے ہم اسی لکیر پر اٹکے رہیں ہم سے اگلے مارشل لاء کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں،وکیل حسن عرفان خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل جاری ہیں ۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ درخواست گزاروں کے موقف کی تائید کرنی ہے،آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا اہل نہیں بناتا۔