(24نیوز )کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 7 میں سے ایک بچے کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کرسکتے ہیں۔یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں لانگ کووڈ کی شرح کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 سے 17 سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی ہے ان میں 15 ہفتے بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران 11 سے 17 سال کی عمر کے 3065 کووڈ مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے 3739 بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے 14 فیصد نے 15 ہفتوں بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا، کنٹرول گروپ میں یہ شرح 7 فیصد تھی۔
محققین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے 15 ہفتوں بعد متعدد علامات موجود ہوسکتی ہیں، مگر اس عمر کے گروپ میں لانگ کووڈ کی شرح توقعات سے کم ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کی بنیاد پر 13 سے 15 سال کے بچوں کی ویکسی نیشن کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا کوئی ڈیٹا نہیں جس سے عندیہ ملتا ہو کہ ویکسی نیشن سے لانگ کووڈ سے تحفظ مل سکتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہم 12 سے 15 سال کے بچوں میں ویکسین کے محفوظ ہونے کے شواہد کو جمع کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔
ہر 7میں سے ایک بچے میں 'لانگ کووڈ' کے اثرات ہونے کا انکشاف
Sep 03, 2021 | 20:23:PM