(روزینہ علی)قومی اسمبلی اجلاس شروع ہوگیا،اجلاس میں ارکان اظہار خیال کررہے ہیں ،ایجنڈے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق بل ایجنڈےمیں شامل،اقلیتوں کے تحفظ کے اقدامات کے لئے قرارداد بھی ایوان میں پیش کی جائے گی ۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت سپیکر سردار ایاز صادق کریں گے ۔ارکان اسمبلی مختلف کرمنل قوانین میں ترامیم کے لئے سہیل سلطان ترمیمی بل پیش کریں گے،آرٹیکل 51، 59 اور 106 میں ترامیم کے لئے نور عالم خان آئینی ترمیمی بل پیش کریں گے،آرٹیکل 177، 193 اور 208 میں ترامیم کے لئے نور عالم خان آئینی ترمیمی بل پیش کریں گے،توہین عدالت آرڈیننس 2003 کی تنسیخ کے لئے نور عالم توہین عدالت ترمیمی بل 2023 پیش کریں گے۔
آئین کے آرٹیکل 198 میں ترمیم کے لئے چنگیز احمد خان آئینی ترمیمی بل پیش کریں گے،نور عالم خان سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کا بل پیش کریں گے،اقلیتوں کے تحفظ کے اقدامات کے لئے قرارداد ایوان میں پیش کی جائے گی،وفاق کے سرکاری ہسپتالوں میں بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کی قرارداد پیش کی جائے گی،کھیلوں کے قومی منصوبہ جات کے فروغ کے لئے قرارداد ایوان میں پیش کی جائے گی۔
بیرون ملک پیشہ ور پاکستانی مافیا کے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیا جائے گا،کارپوریٹ فارمنگ کے لئے 4.8 ملین ایکڑ اراضی دئیے جانے پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا جائے گا۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ٹیلی کمیونیکیشن اپیلیٹ ٹربیونل قیام بل 2024 اور نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2024 منظور کرلیے گئے،ٹیلی کمیونیکیشن اپیلیٹ ٹربیونل قیام بل کے مطابق الیکٹرانک جرائم کے کیسز اب عدالتوں کے بجائے ایپلٹ ٹربیونل سنیں گے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایپلٹ ٹربیونل 3 ارکان پر مشتمل ہوگا، عدالت عالیہ کا ریٹائرڈ جج یا 15 سال وکالت کا تجربہ رکھنے والا ٹربیونل چیئرمین ہوگا۔
ضرورپڑھیں:آئین میں ترمیم کی افواہیں،چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع،مولانا کیا چاہتے؟
وفاقی حکومت کو ٹربیونل ارکان کی تعداد میں اضافے یا کمی کا اختیار ہوگا، ٹیلی کمیونیکیشن اپلیٹ ٹربیونل کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے۔بل کے مطابق ٹربیونل کو کسی بھی شخص کی طلبی اور دستاویزات وصولی کا اختیار ہوگا، ٹربیونل کے چیئرمین اور ارکان کے عہدے کی مدت 4 سال ہوگی جبکہ ٹربیونل کے اراکین کی عمر 64 سال سے زائد نہیں ہوگی۔عدالت میں زیر سماعت متعلقہ کیس ایک ماہ میں ٹربیونل کو منتقل ہوجائے گا، ٹربیونل فیصلے کے خلاف اپیل 60 دن میں صرف سپریم کورٹ میں کی جاسکے گی۔
قومی اسمبلی میں منظور ہونے والا نجکاری کمیشن ترمیمی بل وفاقی وزیر علیم خان نے پیش کیا، ایکٹ نجکاری کمیشن 2024 کے نام سے موسوم ہوگا جبکہ بل کے تحت نجکاری اپیلٹ ٹربیونل قائم کیا جائے گا۔
اپیلٹ ٹربیونل کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے، ٹربیونل کے چیئرمین اور اراکین کی مدت ملازمت تین سال ہوگی اور ارکان کی عمر 65 سال سے زائد نہیں ہوگی۔ترمیمی بل کے مطابق عدالت عظمیٰ کا ریٹائرڈ جج ٹربیونل کا چیئرمین ہوگا، حکومت ایک چیئرمین، ایک تکنیکی رکن اور ایک عدالتی رکن پر مشتمل ٹربیونل تشکیل دے گی،وفاقی حکومت ٹربیونل کے چیئرمین یا رکن کو نوٹس پر برطرف کر سکے گی، ٹربیونل کے قیام کا مقصد منصفانہ اور شفاف طریقے سے نجکاری کا عمل مکمل کرنا ہے۔
ٹربیونل کو تمام معاملات پر فیصلے دینے کا خصوصی اختیار حاصل ہوگا، ٹربیونل کو دیوانی عدالت کا اختیار بھی حاصل ہوگا، ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 60 دن کے اندر صرف سپریم کورٹ میں اپیل ہوسکے گی جبکہ ایکٹ میں ترمیم سے نجکاری کے بروقت حل کو یقینی بنایا جاسکے گا۔