’ہماری بات کوئی نہیں سنتا‘سردار اختر مینگل قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ،ریاست،صدر،وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اعلان
ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے،ہم اپنے حق کے لیے احتجاج بھی نہیں کر سکتے ، ہمیں خاموش کروایا جا رہا ہے ،چیئرمین بی این پی (مینگل)
Stay tuned with 24 News HD Android App
(طیب سیف)بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔
اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ سیکرٹری قومی اسمبلی کو جمع کروا دیا،انہوں استعفے میں لکھا ہے کہ میں بحیثیت ممبر قومی اسمبلی این اے 256 اپنی نشست سے استعفی دیتا ہوں،بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر دلبرداشتہ ہو کر استعفیٰ دے رہا ہوں،ہمارا صوبہ قومی اسمبلی کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔
متن میں کہا گیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے،ہم اپنے حق کے لیے احتجاج بھی نہیں کر سکتے ، ہمیں خاموش کروایا جا رہا ہے ،موجودہ صورتحال میں مجھے لگا میں مزید نہیں چل سکتا ،براہ مہربانی میرا استعفیٰ قبول کیا جائے ،سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں نا ہونے پر استعفیٰ سیکرٹری قومی اسمبلی کو جمع کروایا گیا ،اختر مینگل نے استعفی 2:35 پر سیکرٹری قومی اسمبلی کو جمع کرایا ۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے،کہتے ہیں کہ ہماری بات کوئی نہیں سنتا،ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے استعفے پر پارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا،میں اندھوں کے شہر میں آئینے بیچتاہوں ،بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا نکل چکا ہے ، جب بھی مسئلے پر بات کی تو بلیک آؤٹ کر دیا جاتا ہے،جہاں آواز نہ سنی جائے ایسی اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ، ریاست ، صدر،وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتاہوں،مجھے بے شک مار دیں لیکن میری بات تو سنیں۔
جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چئیرمین بنا دیتے ہیں ،ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں ، آئین بنانے والے نا خود کو بچا سکے نا آئین کو ،ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجاتے ہیں، اختر مینگل این اے 256 خضدار سے ایم این اے منتخب ہیں۔
یاد رہے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے،گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ٹیلی کمیونیکیشن اپیلیٹ ٹربیونل قیام بل 2024 اور نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2024 منظور کرلیے گئے،ٹیلی کمیونیکیشن اپیلیٹ ٹربیونل قیام بل کے مطابق الیکٹرانک جرائم کے کیسز اب عدالتوں کے بجائے ایپلٹ ٹربیونل سنیں گے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایپلٹ ٹربیونل 3 ارکان پر مشتمل ہوگا، عدالت عالیہ کا ریٹائرڈ جج یا 15 سال وکالت کا تجربہ رکھنے والا ٹربیونل چیئرمین ہوگا۔
وفاقی حکومت کو ٹربیونل ارکان کی تعداد میں اضافے یا کمی کا اختیار ہوگا، ٹیلی کمیونیکیشن اپلیٹ ٹربیونل کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے۔بل کے مطابق ٹربیونل کو کسی بھی شخص کی طلبی اور دستاویزات وصولی کا اختیار ہوگا، ٹربیونل کے چیئرمین اور ارکان کے عہدے کی مدت 4 سال ہوگی جبکہ ٹربیونل کے اراکین کی عمر 64 سال سے زائد نہیں ہوگی۔عدالت میں زیر سماعت متعلقہ کیس ایک ماہ میں ٹربیونل کو منتقل ہوجائے گا، ٹربیونل فیصلے کے خلاف اپیل 60 دن میں صرف سپریم کورٹ میں کی جاسکے گی۔
قومی اسمبلی میں منظور ہونے والا نجکاری کمیشن ترمیمی بل وفاقی وزیر علیم خان نے پیش کیا، ایکٹ نجکاری کمیشن 2024 کے نام سے موسوم ہوگا جبکہ بل کے تحت نجکاری اپیلٹ ٹربیونل قائم کیا جائے گا۔
اپیلٹ ٹربیونل کو عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے، ٹربیونل کے چیئرمین اور اراکین کی مدت ملازمت تین سال ہوگی اور ارکان کی عمر 65 سال سے زائد نہیں ہوگی۔ترمیمی بل کے مطابق عدالت عظمیٰ کا ریٹائرڈ جج ٹربیونل کا چیئرمین ہوگا، حکومت ایک چیئرمین، ایک تکنیکی رکن اور ایک عدالتی رکن پر مشتمل ٹربیونل تشکیل دے گی،وفاقی حکومت ٹربیونل کے چیئرمین یا رکن کو نوٹس پر برطرف کر سکے گی، ٹربیونل کے قیام کا مقصد منصفانہ اور شفاف طریقے سے نجکاری کا عمل مکمل کرنا ہے۔
ٹربیونل کو تمام معاملات پر فیصلے دینے کا خصوصی اختیار حاصل ہوگا، ٹربیونل کو دیوانی عدالت کا اختیار بھی حاصل ہوگا، ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 60 دن کے اندر صرف سپریم کورٹ میں اپیل ہوسکے گی جبکہ ایکٹ میں ترمیم سے نجکاری کے بروقت حل کو یقینی بنایا جاسکے گا۔