کلبھوشن یادیو کو نظر ثانی کا حق ۔۔سینٹ ارکان کی آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) سینٹ کی قانون وانصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی کے متعدد ارکان نے انڈین جاسوس کلبھو شن یادیو کیلئے قانون سازی کی بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دے دی ۔ ارکان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن دشمن ملک سے ہے، اس کو نظرثانی کی درخواست کا حق دیا جا رہا ہے تو پاکستان کے جن لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دی گئی ہیں ان کو کیوں یہ حق نہ دیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس بیرسٹر علی ظفر کی زیر صدرات ہوا جس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر نظرثانی بل کو دوبارہ زیر غور لایا گیا۔ اجلاس انڈین جاسوس کلبھوشن کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر غور کرنے اور مجرم کو نظر ثانی کا حق دینے کے بارے میں بدھ کے روز طلب کیا گیا تھا۔جن ارکان نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دی ان میں سے اکثریت کا تعلق حزب مخِالف کی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے پاکستان فضل الرحمن گروپ سے ہے۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم قائمہ کمیٹی کے ارکان کو اس معاملے پر بریفنگ دینے لگے تو کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ ان کے پاس تو کلبھوشن یادیو کے بارے میں انٹر نیشل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کی کاپی ہی موجود نہیں ہے تو پھر اس کو کیسے زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ان ارکان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ اس فیصلے کو پڑھیں گے نہیں تو وہ کیسے اس حوالے سے نظرثانی بل پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
کمیٹی کے چیئرمین نے وفاقی وزیر قانون سے کہا کہ وہ پہلے ارکان کو اس مقدمے کے خدوحال کے بارے میں بتائیں جس پر فروغ نسیم نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ انڈین جاسوس کو تین مارچ سنہ 2016 میں گرفتار کیا گیا جبکہ پاکستان کی فوجی عدالت نے10 اپریل سنہ 2017 کو جرم ثابت ہونے پر انڈین جاسوس کو موت کی سزا سنائی تھی۔جبکہ اس فیصلے کے خلاف انڈین حکومت نے مئی سنہ2017 میں انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس میں اپیل دائر کی تھی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے وفاقی وزیر قانون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کمیٹی کے ارکان کو مطمئن کرنا ہوگا کہ مجرم کو اپیل کا حق دینے کے لئے ایکٹ لانا کیوں ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی سی جے نے تو پاکستان کو پابند نہیں کیا کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کریں۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اگر آئی سی جے کے فیصلے میں قانون سازی کے بارے میں کہا گیا ہے تو پھر ضرور قانون سازی کریں۔ مسلم لیگ نواز کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر قانون سازی کرنی ہے تو سب کے لئے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے پاکستانیوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔
فاروق ایچ نائیک نے سوال اٹھایا کہ نظرثانی سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہ کی جائے؟ جس پر حکمراں جماعت کے سینیٹر اور وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ اس وقت آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ نہ کھولا جائے۔کمیٹی کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ 'اس قانون میں ایک غلطی نظر آ رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک دشمن ملک کا جاسوس جس نے اتنی دہشت گردی پھیلائی آپ اس کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں۔کمیٹی کے رکن اور جمعیت علمائے پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ دشمن ملک کے جاسوس کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں اپنے شہریوں کو یہ حق نہیں دیا جا رہا۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ حکومت کلبھوشن کو اپیل کا حق نہیں دے رہی اور اگر کمیٹی کے کچھ ارکان ایسا سمجھ رہے ہیں تو پھر انہوں نے یہ قانون پڑھا ہی نہیں جس پر سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت مجرم کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق دینے کی کوشش کر رہی ہے اس لئے چپکے سے صدارتی آرڈیننس لایا گیا۔ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ جو ایک کو حق دیا جا رہا ہے وہ سب کو دیا جائے۔یہ سن کر وفاقی وزیر قانون غصے میں آگئے اور کہا کہ ایک ہی سوال کو بار بار نہ پوچھا جائے، جس پر ڈاکٹر مصدق نے کہا کہ کیا وہ اس معاملے پر بات نہ کریں اور اجلاس سے اٹھ کر چلیں جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ارکان بات کریں گے اور حکومت کو یہ باتیں سننا ہوں گی۔بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ایک ہی سوال بار بار نہیں سنا جائے گا جس پر ڈاکٹر مصدق نے کہا کہ آپ اس طرح کی ڈکٹیشن نہیں دے سکتے آپ کمیٹی کے چیئرمین نہیں ہے جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اگرمیں چیئرمین نہیں ہیں تو آپ کا ذاتی ملازم بھی نہیں ہوں۔
اس موقع پر کمیٹی کے رکن اور سینٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مداخلت کی اور وزیر قانون سے سوال کیا کہ فرض کریں آئی سی جے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو اس کا کیا اثر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کیا یہ درست نہیں کہ کچھ کیسوں میں آئی سی جے کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس قانون پر عملدرآمد نہ ہوا تو انڈیا ہمارے خلاف آئی سی جے میں توہین عدالت کی درخواست لے کر چلا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا پاکستان کے خلاف سکیورٹی کونسل میں قرارداد بھی لاسکتا ہے۔ حکومت نے اس مقدمے کے حوالے سے جو اقدامات کئے ہیں اس کی وجہ سے انڈیا آج تک پاکستان کے خلاف کچھ نہیں کر سکا۔ وفاقی وزیر قانون نے قائمہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس کو ان کیمرا کرنے کی درخواست بھی کی ۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے آئی سی جے کے فیصلے کی روشنی میں انڈین جاسوس کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس پر عدالت نے حکومت کو اس حوالے سے انڈین حکومت کو خط لکھنے اور وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں کہا۔