(تنزہ حیدر) آئی ایم ایف کیا ہےاور کیسے بنا، یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں اورکیسے دیتا ہے اور کن شرائط پر دیتا ہے?
آئی ایم ایف سنہ 1944 میں امریکہ میں ہونے والی بریٹن ووڈ کانفرنس کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے دوسری عالمی جنگ کے دوران 44 ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں عالمی معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ ایک مستحکم ایکسچینج ریٹ کا نظام بنانے اور جنگ سے متاثرہ یورپی ممالک کی معیشت کو بحال کرنے پر بات چیت ہوئی تھی۔ان سب مقاصد کو پورا کرنے کے لیے عالمی بینک اور آئی ایم ایف معرض وجود میں آئے۔
آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ سب مل کر عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بھی ملک تقاضے پورے کر کے اس میں شمولیت کی درخواست دے سکتا ہے۔ ان تقاضوں میں معیشت سے متعلق معلومات اور کوٹا سبسکرپشن کہلائی جانے والی واجب ادا رقم شامل ہے۔ سبسکرپشن کے لیے جو ملک جتنا امیر ہوتا ہے، اسے اتنے زیادہ پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں
کسی معیشت کی نگرانی اور اس کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہے:
· معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ۔
· رکن ممالک کو تجاویز کہ وہ اپنی معیشت کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
· ان ملکوں کے لیے قلیل مدتی قرضے اور مالی معاونت کا کام جو مشکلات سے دوچار ہیں۔
یہ قرضے رُکن ممالک کے کوٹا سبسکرپشن سے ممکن ہوتے ہیں۔ رکن ممالک کو دینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس کل رقم ایک ٹریلین ڈالر ہے۔
اکثر آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا آخری راستہ سمجھا جاتا ہے۔ معاشی بحران سے متاثرہ کسی بھی ملک کی آخری امید آئی ایم ایف سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کسی ملک کو قرض کیسے دیتا ہے؟
· سب سے پہلے ایک رکن ملک آئی ایم ایف سے مالی مدد کی درخواست کرتا ہے۔ اس ملک کی حکومت اور آئی ایم ایف کا عملہ معاشی و مالی صورتحال اور قرض کی رقم پر بات چیت کرتے ہیں۔
· ملک کی حکومت اور آئی ایم ایف معاشی پالیسیوں پر اتفاق کرتے ہیں جس کے بعد آئی ایم ایف اس ملک کو قرض دینے پر راضی ہوجاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط سے مراد پالیسی اقدامات ہیں جو قرض لینے کے لیے ایک ملک کو کرنے ہوتے ہیں۔
· پالیسی پروگرام آئی ایم ایف کے بورڈ کو پیش کیا جاتا ہے تاہم ایمرجنسی فنانسنگ کے تحت اس نظام کو تیز کیا جاسکتا ہے۔
· ایگزیکٹیو بورڈ قرض کی منظوری دیتا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف پالیسی اقدامات کی نگرانی کرتا ہے۔
· ملک کی معاشی اور مالی صورتحال بہتر ہونے پر آئی ایم ایف کو قرض کی رقم واپس کی جاتی ہے تاکہ اسے دوسرے رکن ممالک کے لیے دستیاب بنایا جاسکے۔
آئی ایم ایف کے مطابق ان بحرانوں سے پیداوار میں کمی آسکتی ہے، بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، آمدن میں کمی آ سکتی ہے اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہ وسکتی ہے۔ شدید بحران کی صورت میں ڈیفالٹ (دیوالیہ ہونے) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور قرضوں کی تنظیم نو ناگزیر ہو جاتی ہے۔
ترقیاتی بینکوں کے برعکس آئی ایم ایف کسی مخصوص پراجیکٹ کے لیے قرض نہیں دیتا۔ اس کا مقصد ملکوں کو معاشی بحران میں مالی معاونت فراہم کرنا ہے۔ ایسے میں معاشی استحکام اور پیداوار کے لیے پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔
سنہ 2019 سے کرسٹالینا جیورجیوا آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ اس سے قبل عالمی بینک کی چیف ایگزیکٹیو تھیں جنھوں نے آئی ایم ایف میں کرسٹینا لیگارڈ کی جگہ لی جو خود اب مرکزی یورپین بینک کی صدر ہیں۔ کرسٹالینا جیورجیوا بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی پہلی آئی ایم ایف سربراہ ہیں جو یورپی یونین کا سب سے غریب ملک ہے۔
آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا تھا جبکہ پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا۔
پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے عالمی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔
اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ آخری بار آئی ایم ایف بورڈ نے اگست 2022 میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے ساتویں اور آٹھویں ریویو کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض دیا تھا۔
پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہو چکے ہیں جو نو فروری تک جاری رہیں گے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے جانے والے قرض کی قسط کو روک رکھا ہے اور حکومت سے ٹیکس اکھٹا کرنے کے حوالے سے سخت مطالبات رکھے ہیں جن پر گفت و شنید اب جاری ہے۔