ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز ) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، سزا یافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے۔
دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایف بی علی کیس کا 1962 کے آئین کے مطابق فیصلہ ہوا اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟
ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟ جسٹس محمد علی مظہر
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ایف بی علی کیس میں بھی کہا گیا ہے کہ سویلینز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔
مزید پڑھیں: ججز کی ٹرانسفر آئین کے تحت ہوئی، مزید صوبوں سے بھی آنے چاہئیں: چیف جسٹس
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟
عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بینادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے: سلمان اکرم راجہ
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے، عدالت نے قرار دیا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی،اسی لیے ایوب خان کے دور میں حبیب جالب نے نظم لکھی میں نہیں مانتا، ایسے دستور کو میں نہیں مانتا، ایف بی علی بعد میں کینیڈا شفٹ ہوئے جہاں وہ کینیڈین آرمی کے ممبر بن گئے۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 80-1977 کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل لاء میں سزا یافتہ لوگوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں، ہر 8 سے 10 سال بعد عدلیہ کو تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن کیلئے ایک قانون لایا گیا تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بنیادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:ملٹری ٹرائل کیس: 9 مئی اور 16 دسمبر والے شہریوں میں کیا فرق ہے؟ آئینی بنچ
کیا اس اپیل میں ہم 187 کے اختیار استعمال کرسکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ہم ایک فیصلے کے خلاف اپیل سن رہے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اس اپیل میں ہم 187 کے اختیار استعمال کرسکتے ہیں؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار تو عدالت کے پاس ہمیشہ رہتا ہے جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ شروع میں آپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض کیا تھا شکر ہے اب بڑھا دیا، سلما ن اکرم راجہ نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔
بعدازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔
شفاف ٹرائل کسی آزاد ٹریبونل میں ہی ممکن ہے فوجی عدالتوں میں نہیں: سلمان اکرم راجہ
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے بہت ریسرچ کی ایسی کوئی سیکشن دنیا میں نہیں، ہمارا آئین کا آرٹیکل 175 تین آزاد ٹرائل کو یقینی بناتا ہے، بھارت میں ہمارے آئین کے آرٹیکل 175 تین جیسی کوئی چیز شامل نہیں۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں اس کے باوجود محض اصول کی بنیاد پر عدالتوں نے ٹرائل کی آزادی کو یقینی بنایا ہے، ہمارا تو آرٹیکل 175 تین آزاد ٹرائل کا مکمل مینڈیٹ دیتا ہے، شفاف ٹرائل کسی آزاد ٹریبونل میں ہی ممکن ہے فوجی عدالتوں میں نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب سویلین آرمڈ پرسن کو اکسانے کی کوشش کرے، کیا آرٹیکل 10 اے صرف سویلین کی حد تک ہے یا اسکا اطلاق ملٹری پرسن پر بھی ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں، ہم باقی سوالات کسی اور کیس میں دیکھ لیں گے، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 کی شق تین کا فائدہ سویلین اور آرمڈ فورسز دونوں کو دینا ہوگا ۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ بعض اوقات ملک دشمن ایجنسیاں سویلین کو استعمال کرتی ہیں، آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، ایسے میں تو ملک دشمن ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والوں کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا۔
مزید پڑھیں:وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش کردیا
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں بھارتی آرمی ایکٹ اور پاکستان کے آرمی ایکٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں، ایسا نہیں ہو سکتا ایک ایس ایچ او خود عدالت لگا لے، اپیل ایس پی سنے اور توثیق آئی جی کرے، بھارت میں ملٹری ٹرائل کیخلاف اپیل ٹریبونل میں جاتی ہے، ٹریبونل اپیل میں ضمانت بھی دے سکتا ہے، شفاف ٹرائل کا حق ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا بھارت کے آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ یہ شقیں بھارت میں نہیں ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ شقیں ہی نہیں ہیں تو آپ تقابلی جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟
ہمارا اور بھارت کا قانون الگ الگ ہے: جسٹس امین الدین
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارا قانون الگ ہے، بھارت کا قانون الگ ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سویلین اور ملٹری پرسنز دونوں پاکستان کے شہری ہیں۔
بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کہا جاتاہے آرمی ایکٹ میں سویلینز سے متعلق دفعات دہشتگردوں کیلئے ہیں، دراصل یہ دفعات حکومت اپنے مخالفین پر لگا رہی ہے، مجھ پر بھی ایف آئی آر ہے کہ 26 نومبر کو تین رینجر اہلکاروں کو قتل کیا، الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے ہی قتل کا منصوبہ بنایا تھا، مجھے کہا جا رہا ہے عدالتوں میں اور ٹی وی پر بولنابند کر دو۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے کہا جارہا ہے تمہیں رینجر اہلکاروں کے قتل پر ملٹری کورٹس لے جائیں گے، ہو سکتا ہے مجھے سات فروری کو اسی کیس میں گرفتار کر لیاجائے، عدالت ان دفعات کو بحال کرتی ہے تو ان کا ایسا ہی استعمال ہو گا۔