(24نیوز) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق سوال پر ریمارکس دیئے کہ اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔ منافق کافر سے بھی زیادہ بُرا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مدت کیس کی سماعت ہوئی،درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدالتیں ڈیکلریشن دینے کا اختیار رکھتی ہیں، 2017 میں سپریم کورٹ نے قرار دیا جب حقائق تسلیم شدہ ہوں ڈیکلریشن دیاجا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کیسے ڈیکلریشن دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کو یہ حق کیسے حاصل ہوا، کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 62ون ایف کا براہ راست کورٹ آف لاء کے اختیار کا استعمال کر سکتی ہے، کیا الیکشن ٹربیونل تاحیات نااہل بھی کر سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہوگی یہ کہاں لکھا ہوا ہے، نااہلی تاحیات کا اصول توسمیع اللہ بلوچ کیس میں طے کیا گیا، اگر ہم سمیع اللہ بلوچ کیس اور سیکشن 232دونوں کو غلط کہہ دیں تو نااہلی تو ایک دن بھی نہیں رہے گی، کوئی سچا ہے یا نہیں یہ اصول تو ٹرائل کے بعد ہی طے ہو سکتا ہے، اسلام میں توبہ اور صراط المستقیم پر واپس آنے کا راستہ موجود ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد بھی سزا کاٹ کر الیکشن لڑنے کیلئے اہل ہو جاتے ہیں، اہلیت سے متعلق دونوں آرٹیکل الیکشن سے قبل لاگو ہوتے ہیں، جب قانون آچکا ہے اور نااہلی پانچ سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی ۔ غداری ،زیادتی،قتل کے الزام کا سامنا کرنے والا الیکشن لڑ سکتا ہے لیکن معمولی خطا پر نااہلی تاحیات۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک فوجی آمر آتا ہے سب کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے، آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی، آئینی ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں، بندوق کا تقدس کیسے مان سکتے ہیں، آرٹیکل 62اور 63 کا اطلاق فوجی آمر نے خود پر کیوں نہیں کیا۔
جسٹس فائز نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت تو آمر نے آئین میں شامل کی، یہاں ترامیم بھی گن پوائنٹ پر ہوتی رہیں، ان لوگوں نے سوچا ہوگا آدھی جمہوریت آ جائے پوری جمہوریت سے تو بہتر ہے، فوجی آمر کے سامنے یہاں کوئی بات نہیں کرتا، پارلیمنٹ کو جتنی بھی حقارت سے دیکھیں وہ منتخب نمائندے ہوتے ہیں، یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟، آپ کہہ رہے ہیں نااہلی تاحیات کرنے والے پانچ ججز کی دانش سے 326 اراکین اسمبلی کے اختیار کو ختم کیا گیا۔
مزید پڑھیں: شیر افضل مروت کا پشار ہائیکورٹ کے جج پر الزام عائد
جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ الیکشن آٹھ فروری کو ہو رہے ہیں، ایک ریٹرننگ افسر تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق کرے گا، دوسرا ریٹرننگ افسر پانچ سال نااہلی کی بات کرے گا، ہم اس تضاد کو ختم کرنے کیلئے کیس سن رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہے یا پانچ سال، کیا ہم نااہلی دو سال بھی کر سکتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کون تعین کرے گا کس کا کردار اچھا کس کا نہیں۔وکیل عثمان کریم نے جواب دیا کہ حتمی طور پر تعین اللہ ہی کر سکتا ہے۔
وکیل عثمان کریم نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، پھر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی، اس کے بعد تین رکنی بینچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظرثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی، جسٹس عمر عطاء بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا، اب سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ پانچ رکنی بینچ کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی مؤقف کی نفی کی؟محمد عثمان کریم نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت کے تعین کی درست تشریح نہیں کی، لہذا اب تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، سپریم کورٹ اپنی غلطی کی تصحیح کر سکتی ہے۔
عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل دس اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے، ریٹرننگ افسر ڈیکلریشن نہیں دے سکتا، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لاء نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے عزیر بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیس پیچیدہ بنا رہے ہیں،ہم نے کیس سادہ بنانا ہے کہ ریٹرننگ افسر کس کے کاغذات قبول کرے اور کس کے مسترد ،نااہلی کی مدت کے تعین کو واضح کرنے بیٹھے ہیں۔