دعا، ظہیر کراچی سے لاہور
تحریر: بلال احمد
Stay tuned with 24 News HD Android App
دعا زہرا کیس کو لے کر والدین ہی نہیں سبھی پریشان دیکھائی دیتے ہیں کہ کہیں ان کی کم عمر بچیوں کو اچانک کوئی گینگ ورغلا کر، بہلا کر اغوا اور پھر کسی گروہ کو فروخت تو نہیں کر دے گا، کیونکہ بچیوں کے اغوا، فروخت، جسم فروشی میں استعمال تو ہمیشہ ہی سے دنیا بھر میں رہا مگر دعا زہرا کیس میں اس "مخصوص بیانئے" نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔
کیا واقعی دعا زہرا، کسی جسم فروش گینگ کے ہتھے چڑھی؟ اس سوال کا جواب تو موجودہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مہدی کاظمی صاحب کے گھر جانے اور چند ہی گھنٹوں میں تحقیقاتی اداروں کی ابتدائی رپورٹس سے سامنے آچکا تھا، مگر دعا زہرا لاہور میں کس حالت میں اور کن ہاتھوں میں ہے؟ یہ سوال ابھی بھی موجود تھا۔
بس اسی عرض سے سی این این ( سٹی نیوز نیٹ ورک) نے حقائق جاننے اور دعا زہرا کا انٹرویو کرنے کی ذمہ داری سونپی، لاہور پہنچا، ظہیر، ظہیر کے آباد و اجداد، فیملی ممبرز کی تفصیلات لیں، دعا زہرا سے کوئی چار، پانچ گھنٹے ملاقات کی، تسلی سے انٹرویو لیا، جھوٹ اور سچ جاننے کی پوری کوشش کی۔
پنجاب یونیورسٹی، ظہیر کے گھر، اہل علاقہ، لاہور کے سینئر صحافیوں، کوئی تین درجن کے لگ بھگ افراد سے ملاقاتوں کے بعد معلوم ہوا کہ ظہیر کے دادا مقبول احمد کا تعلق حویلی لکھاں، تحصیل دیپال پور، ضلع اکاڑہ سے تھا، روزگار کے لیے مقبول احمد کے بیٹے یعنی ظہیر کے چچا، والد سبھی پنجاب یونیورسٹی میں بطور ڈرائیور بھرتی ہوگئے، ظہیر کے والد منیر احمد نے اسی دوران کوشیشوں سے اپنی اہلیہ نور منیر کو بھی ملازمت دلوا دی، منیر احمد کا چھ جون دو ہزار گیارہ کو دوران سروس دل کا دورہ پڑنے پر انتقال ہوا تو سن کوٹے پر ظہیر کے سب سے بڑے بھائی شبیر احمد کو جونئیر کلرک کی نوکری مل گئی۔
بچوں کے تحفظ کے لیے نور منیر نے شوہر کی پینشن وغیرہ سے لاہور بحریہ آرکیڈ میں تینوں بیٹوں کے نام ایک ایک پلاٹ بک کروا دیا (جو اس وقت فی پلاٹ ساٹھ سے ستر لاکھ روپے مالیت رکھتا ہے)، ظہیر کا تیسرا بھائی قدیر شاپ کیپر ہے جبکہ شبیر اپنی اہلیہ کے ساتھ گھر میں والد کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔
ظاہر ہے جونئیر کلرک یا لوئر گریڈ جیسے طبقے کے افراد کی رہن سہن جیسا ہوتا ہے، ظہیر کے گھر کا حال اس سے کچھ مختلف نہ تھا، ظہیر کیا کرتا ہے کچھ آذاد ذرائع سے مخصوص آمدن کی کنفرمیشن نہیں مگر وہ ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالب علم ضرور رہا اور مزید تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
اب آتے ہیں دعا اور ظہیر کی جانب، تین سال پہلے پب جی پر ہونے والا رابطہ دوستی اور پھر محبت، ایک دوسرے کے لیے وعدوں اور جینے مرنے تک پہنچ گیا، دعا خود اکیلے گئی یا کوئی ساتھ لے کر گیا اس پر بات پھر کبھی سہی مگر جب میں نے لاہور میں ظہیر کی فیملی کا لائف اسٹائل دیکھا تو حیران ضرور ہوا کہ مڈل کلاس گھرانے، پیزا، کوک پینے والی بچی لاہور میں اس گھرانے میں کیسے ایڈجسٹ ہو رہی ہے یا ہونے کی کوشش کر رہی ہے، دعا کو لاہور میں ظہیر کے گھر وہ سہولیات تو میسر نہیں جو والدین کے گھر تھیں مگر دعا آج بھی نوڈلز اور وہی کھانے کھا رہی ہے۔
لاہور میں جن سے بھی ملاقاتیں ہوئیں ان سے ایک سوال ضرور ہوا، اس طبقاتی تقسیم میں دعا کتنا عرصہ سروائو کرے گی، یہی سوال دعا سے بھی پوچھا، بزرگوں، وکلا، صحافیوں اور پھر دعا سے بات کرکے اندازہ ہوا کہ پہلے تو عین ممکن تھا کہ محبت کا جذباتی لگاو شاید چھ، آٹھ ماہ میں اتر جاتا اور دعا اپنے والدین کی طرف آس لگاتی مگر جس انداز سے والدین کی جانب سے مقدمہ بازی اور ایک کے بعد دوسری عدالت میں پیشیوں نے والدین اور دعا کے مابین ایک ایسی خلیج برپا کردی ہے، جیسے پر کرنا ایک عرصے تک ممکن نہ ہو، اور اس صورتحال نے دعا اور ظہیر کے اس رشتہ کو کہیں مضبوط کردیا ہے جو وقت سے بہت پہلے جڑ چکا ہے۔
تو پھر سوال بنتا ضرور ہے کہ کیا والدین اپنے بچوں کا کبھی برا چاہ سکتے ہیں، اور مہدی صاحب تو سبھی والدین کے لیے قابل تقلید بنتے دیکھائی دے رہے ہیں، شاید، اس سوال کا جواب، سپریم کورٹ کے تینوں ججز نے بھری عدالت اور پھر چیمبرز میں تیس منٹ کی ملاقات میں بھی دیا۔
روز اول سے دعا کیس کو دیکھنے، والدین کی محبت، شفقت اور بیٹی کے لیے کی گئی نیک خواہش اور تحفظ کی کوشیش، دعا زہرا کی سوچ سے ایک نتیجہ تو ضرور نکلتا ہے کہ اگر والدین متبادل پر جاتے تو طبقات تقسیم اسی بیٹی سے چھ ماہ میں ہی ملا دیتی (یہ بات بہت اہم ہے کہ کسی اقدام کے لیے نیک نیتی ہی ضروری نہیں درست طریقہ کار کا انتخاب بھی لازم ہے)۔
ایک غریب فیملی کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے تو یہ سوال بہت اہم ہے، دعا، ظہیر کے اس کرائسس کے بعد ظہیر کے سب سے بڑے بھائی شبیر نے لاہور بحریہ کا اپنا پلاٹ فروخت کیا، جس نے شبیر فیملی کو اس پوری صورتحال میں آکسیجن کا کام دیا، یاد رہے کہ ظہیر ڈرائیور کا بیٹا ضرور ہے مگر اس وقت بھی کوئی ساٹھ سے ستر لاکھ روپے کے پلاٹ کا مالک ہے، ایک صاحب سے جب میں نے یہ سوال کیا یہ دعا ظہیر کی گاڑی آگے کیسے چلے گی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ظہیر پلاٹ فروخت کردے تو لاہور میں دعا زہرا کو مناسب سہولیات والا گھر اور سہولیات دے سکے گا۔
اب آتے ہیں دعا کی عمر کے تنازعے پر، دیکھئے، دعا کی عمر چودہ نکلے یا سترہ، ایک بات تو سپریم کورٹ کے تینوں ججز نے کہہ دی کہ بچی کو زیادہ سے زیادہ کچھ بالغ ہونے تک شیلٹر ہوم میں رکھا جا سکتا ہے، مگر بچی والدین کو ملے گی؟ شاید، اس سوال کا جواب قانون کی کسی کتاب میں موجود نہیں، خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر بڑا سوال پیدا ضرور ہوگا کہ والدین کا اٹھایا گیا اقدام دوسروں کی بچیوں کا تحفظ کرنے کا ذریعے بنے گا یا انہیں بغاوت اور ایسے اقدامات اٹھانے کا معاون؟
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کیس کا اختتام کیا ہوگا، جواب یہ ہے کہ غیر معمولی اقدامات کے نتائج بھی غیر معمولی ہوتے ہیں، اللہ نہ کرے کہ اس کیس کا اختتام کسی بری خبر پر ہو۔
باقی جہاں تک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سبراہی میں منظم گینگ، گروہ، مافیا سب کور اپ اسٹوریز ہیں جن کا مقصد میڈیا کی توجہی، معاشرے میں خوف کی فضا بنا کر اپنے حق میں ماحول ساز گار پیدا کرنے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، ضروری نہیں یہ سب کچھ متاثرہ فیملی نے طے کیا ہوا، خود نمائی کے خوش مند ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، شاید یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔
اور ہاں، اس مہنگائی کے دور میں بے شمار یوٹیوبرز کے لیے دعا زہرا کیس سونے کی چڑیا ثابت ہوا ہے، اس سے بے نیاز کہ معاشرے میں فساد فی الارض اور بغاوت جنم لے رہی ہے، روزانہ زیادہ سے زیادہ ڈالرز کی سبقت کا مقابلہ جاری ہے ۔باقی "حکومت و ریاست" باریک بینی سے صرف رپورٹس پر رپورٹس بنانے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔
تحریر: بلال احمد
ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں بلکہ یہ بلاگر کا اپنا نقطہ نظر ہے۔