(24 نیوز )سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے ہائیکورٹ ڈویژن بنچ کے فیصلے کو معطل کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کوئٹہ میں وکیل قتل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف کارروائی پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابقکوئٹہ میں وکیل کے قتل میں نامزدگی کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عائشہ ملک سماعت کی، عدالت نے کیس میں کارروائی پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی، عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بنچ نے آپ کی درخواست خارج کی تھی، سپریم کورٹ کا 2 رکنی بنچ اس پر حکم امتناع نہیں دے سکتا۔
کیس کی تفصیلی سماعت
وکیل لطیف کھوسہ نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ 6 جون کو کوئٹہ میں وکیل عبدالرزاق شر کا قتل ہوا، تمام ٹی وی چینلز پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے الزام لگایا کہ قتل عمران خان نے کرایا ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ٹی وی چیلنز کو چھوڑیں، ایف آئی آر سے متعلق بتائیں، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ مقتول وکیل عبدالرزاق شر کے بیٹے نے والد کے قتل پر عمران خان کیخلاف مقدمہ درج کرایا، مقتول کے بیٹے نے مقدمے میں کہا کہ اس کے والد نے عمران خان کیخلاف ہائیکورٹ میں آرٹیکل 6 کا مقدمہ کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:قرض معاہدہ اثر دیکھانے لگا ،سٹاک ایکس چینج میں دوسرے روز بھی تیزی
لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا،انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے دیکھا تک نہیں کہ چئیرمین پی ٹی آئی کیخلاف شواہد ہیں یا نہیں،
سردار لطیف کھوسہ کی جانب سے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ نے دہشت گردی دفعات پر فیصلہ دے رکھا ہے۔
عمران خان کے وکیل اور ججز کے درمیان مکالمہ
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر میں کون تعین کرتا ہے کہ دہشت گردی کی دفعات لگنی ہے یا نہیں؟عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ بنیادی ذمہ داری تھانہ کے ایس ایچ او کی ہوتی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ ایس ایچ اوکا فیصلہ اگر غلط ہےتو اس کے خلاف اے ٹی سی کے خلاف درخواست جائے گی یا نہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ اگر اے ٹی اے کا سیکشن 6 اور 7 غلط طریقے سے لگایا گیا ہے تو کس قانون کے تحت ان لو ہٹایا جا سکتا ہے؟کس نے فیصلہ کرنا ہے کہ ملزم پر غلط دفعات کے تحت مقدمے کا اندراج ہوا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا حق ہے کہ جا کر متعلقہ فورم پر درخواست دیں کہ غلط دفعات لگائی گئی ہیں،وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ابھی چلان پیش نہیں ہوا اور چئیرمین پی ٹی آئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے، وکیل کے قتل کیس کا ادراک ابھی کسی عدالت کو نہیں ہوا اور جے آئی ٹی بھی بنا دی گئی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے جے آئی ٹی کو چیلنج کیا ہے؟ وکیل چئیرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ میرے خلاف کیا کیا ہو رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کی کون سی دفعہ انسداد دہشت گردی عدالت کو جے آئی ٹی کے قیام کا اختیار دیتی ہے؟ دفعات کے نفاذ کا اختیار تو ایس ایچ او کے پاس ہی ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایس ایچ او ابھی تحقیقات کے مرحلے پر دہشتگردی کی دفعات عائد نہیں کر سکتا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اب آپ اپنی ہی مخالفت میں دلائل دے رہے ہیں، جب کیس تحقیقاتی مرحلے پر ہے تو کیسے ایف آئی آر ختم کرنے کی استدعا ہو سکتی ہے؟ کون سا قانون اجازت دیتا ہے کہ ایف آئی آر سے یہ دفعات نکال دو؟
عمران خان کی عبوری ضمانت کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ نے سرکاری وکیل سے مقدمہ کی تفصیلات طب کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا، وکیل لطیف کھوسہ کی عمران خان کوعبوری ضمانت دینے کی استدعا مسترد کر دی گئی ، لطیف کھوسہ کی ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف حکم امتناع دینے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی ، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے موکل کی جان کو خطرہ ہے مہربانی فرما کر گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا جائے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم دوسرے فریق کو سنے بغیر اس سطح پر کوئی حکم جاری نہیں کر سکتے،کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی۔
عمران خان کی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی استدعا مسترد
چیئرمین پی ٹی آئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی، لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کیخلاف 150 سے زائد مقدمات درج ہیں،میرے موکل کو فوری ریلیف نہ ملا تو اس کو جان بھی جاسکتی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے کوئی اور درخواست کرنی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کو کی جاسکتی ہے،وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم چیف جسٹس پاکستان سے ملیں تو خبریں لگ جاتی ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ چیف جسٹس سے اکیلے ملنے کے بجائے اٹارنی جنرل کو ساتھ لے جائیں۔
عدالت نے لارجر بنچ کے قیام کی درخواست چیف جسٹس کو پیش کرنے کی ہدایت کر دی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دو رکنی بنچ ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کا فیصلہ معطل نہیں کر سکتا۔
چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ لارجر بنچ بنا کر کل مقدمے کی سماعت کا حکم دے دیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لارجر بنچ بنانا ہمارا اختیار نہیں اس معاملے میں ہم مفلوج ہیں،
چیف جسٹس سے درخواست کریں ممکن ہے کیس آج ہی مقرر ہو جائے،ابھی فوری طور پر آج کا حکمنامہ دستخط کر کے بھیج دیتے ہیں،لطیف کھوسہ نے کہا کہ پچھلے ایک سال سے چئیرمین پی ٹی آئی حفاظتی ضمانت کیلئے ایک سے دوسری عدالت کے چکر کاٹ رہے ہیں،معذرت خواہ ہوں کہ چئیرمین پی ٹی آئی آج پیش نہیں ہو سکے،جسٹس اعجاز الاحسن کہا کہ ایف آئی آر معطلی کیلئے چئیرمین پی آئی کو ذاتی طور پر عدالت آنے کی ضرورت نہیں،وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آج عدالت نے حکم نہ کیا تو گرفتاری بھی ہو سکتی ہے، عدالت گرفتاری روکنے کا حکم دے۔