(24 نیوز) بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی جانب سے سماعت کے دوران انتہائی نامناسب ریمارکس دینے پر انکے عہدے سے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی زیر صدارت 3 رکنی بنچ نے عصمت ریزی کی شکار خاتون سے یہ سوال کیا تھاکہ ’’ کیا وہ جرم کے مرتکب ملزم سے شادی کےلئے تیار ہے کوئی غیر قانونی عمل نہیں ہے بلکہ جوڈیشل ریکارڈ کے عین مطابق ہے‘‘ ان ریمارکس پر پورے بھارت میں برہمی کی لہر پھیل گئی ہے اور چیف جسٹس سے استعفیٰ کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔ سی پی ایم لیڈر برندا کرت نے چیف جسٹس کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا ریمارکس واپس لیں ۔ملک میں یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہئے کہ عدالت اِس طرح کے واقعات کی حمایت کررہی ہے۔ ملک بھر میں کئی تنظیموں ‘ خواتین حقوق کی سرگرم کارکن‘ ممتاز شہریوں اور دانشوروں وفنکاروں نے چیف جسٹس کو کھلا مکتوب جاری کیا ہے اور عہدہ سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ 5 ہزار سے زائد افراد نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے جس پر چیف جسٹس ایس اے بوبڈے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاجنہوں نے سماعت کے موقع پر ملزم (سرکاری ٹیکنیشن) سے کہا تھا کہ ’اگر آپ عصمت ریزی کا شکار لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں، اگر نہیں تو آپ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور جیل چلے جائیں گے‘۔مہم چلانے والی وانی سبرامنیم نے بتایا کہ چیف جسٹس بوبڈے کی رائے پر ہنگامہ کھڑا ہوا اور خواتین کے حقوق کی کارکنان کی جانب سے کھلا خط لکھا گیا جس میں ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا گیا اور اس خط پر اب تک 5 ہزار 200 سے زائد دستخط کیے جاچکے ہیں۔خط کے مطابق اس شخص پر الزام ہے کہ اس نے لڑکی کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے اور اس کے بھائی کو قتل کرنے سے قبل اسے ڈنڈے مارے، اسے باندھ کر رکھا اور بار بار زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔اس خط میں کہا گیا کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی سے اسکا ریپ کرنے والے شخص کی شادی کی تجویز دے کر چیف جسٹس آف انڈیا نے متاثرہ لڑکی کو اسے خودکشی پر مجبور کرنیوالے ملزم کے ہاتھوں ساری زندگی ریپ کروانے کی پیشکش کی۔