بھارت میں تنگ نظر ہندو قوم پرست مفادات کو بلند کیا گیا، امریکی رپورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) امریکا کے ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ میں بھارت کے آزاد اقوام کی صفوں سے نکلنے پر افسوس کے اظہار کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے متنبہ کیا ہے کہ دنیا بھر میں آمریت پسندی اور قوم پرستی عروج پر ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کی تیار کردہ ورلڈ 2021 رپورٹ میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت (وزیر اعظم نریندر مودی) کے تحت ایسا لگتا ہے کہ ’بھارت نے عالمی جمہوری رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی اپنی صلاحیت کو ترک کر دیا ہے جس میں انکے بنیادی اقدار اور سب کے لئے مساوی حقوق کی قیمت پر تنگ نظر ہندو قوم پرست مفادات کو بلند کیا گیا ہے‘۔امریکی سیکریٹری ٹونی بلنکن نے اپنی پہلی بڑی خارجہ پالیسی تقریر میں اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں آمریت اور قوم پرستی عروج پر ہے، حکومتیں کم شفاف ہوتی جارہی ہیں اور لوگوں کا اعتماد کھو چکی ہیں۔ٹونی بلنکن نے جنوری میں اپنے ملک میں انتخابات کے بعد ہونے والے تشدد کا بھی حوالہ دیا جب ایک ہجوم نے انتخابی نتائج کو کالعدم بنانے کے لیے کانگریس پر حملہ کیا تھا۔انہوں نے کہ الیکشن میں تشدد تیزی سے فلیش پوائنٹ بن رہے ہیں، کرپشن بڑھ رہی ہے اور وبائی امراض نے ان میں سے بہت سے رجحانات کو تیز کردیا ہے، جمہوریت کا خاتمہ نہ صرف دیگر مقامات پر ہورہا ہے بلکہ یہ یہاں امریکا میں بھی ہو رہا ہے۔رپورٹ میں امریکی سکور گزشتہ دہائی کے دوران 11 پوائنٹس کم اور صرف 2020 میں 3 پوائنٹس کم ہوا ہے۔2021 میں عالمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں آزاد ممالک کے اعلیٰ درجے سے بھارت کے نکلنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا جس کے حوالے سے خبردار کیا گیا کہ اس سے عالمی جمہوری معیاروں پر خاص طور پر نقصان دہ اثر پڑ سکتا ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک میں سیاسی حقوق اور شہری آزادی کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی، انسانی حقوق کی تنظیموں پر دباؤ بڑھا، قابل لوگوں اور صحافیوں کو دھمکیوں میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں کے قتل سمیت تعصب انگیز حملوں میں اضافہ ہوا۔مودی کے 2019 میں دوبارہ انتخاب کے بعد ہی اس زوال میں تیزی آئی اور گزشتہ سال بھارتی حکومت نے امتیازی شہریت قانون کے مخالف مظاہرین پر اپنا کریک ڈاؤن تیز کیا اور ایسے درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیا جنہوں نے سرکاری وبائی ردعمل پر تنقید کی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی بھی دباؤ میں آگئی ہے، ایک معاملے میں نئی دہلی میں فسادات کے دوران کوئی کارروائی نہ کرنے پر پولیس کی سرزنش کرنے والے جج کو فوری طور پر تبدیل کردیا گیا تھا جن فسادات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر 2020 میں ریاست اتر پردیش نے ایک ایسے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت بین المذاہب شادی کے ذریعے جبری مذہبی تبدیلی پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے ناقدین کو خوف ہے کہ یہ بین المذاہب شادی کو موثر طور پر روکے گا۔ ہندو خواتین کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کے الزام میں بھارتی حکام متعدد مسلمان مردوں کو پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے۔