(24 نیوز)عالمی فوجداری عدالت نے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی باضابطہ تحقیقات کا آغاز کردیا۔ اسرائیل نے اس اقدام کی مخالفت جبکہ فلسطین نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت اس اقدام کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ’انسداد یہودیت کا نچوڑ‘ بتایا جبکہ فلسطینی حکام نے اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ جون 2014 سے چاروں طرف سے بند غزہ کی پٹی کی صورتحال کی فوری اور ضروری تحقیقات کے طور پر آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسودا کے فیصلے کو سراہا ہے۔اس اقدام سے ہیگ میں قائم ٹربیونل جو اسرائیل اور اسکے حلیف امریکا کی طرف سے مسلسل تنقید کا سامنا کرتا رہتا ہے، کو دنیا کے ایک انتہائی مشکل تنازع اور خطرے میں ڈال دیا ہے۔فاتو بنسودا نے کہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں اطراف میں قابل قبول امکانی کیسز موجود ہیں اور تحقیقات نے 2014 کے غزہ تنازع پر توجہ مرکوز کی تھی جس میں 2 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔انہوں نے کہا کہ آخر میں ہماری مرکزی تشویش فلسطینی اور اسرائیلی یعنی دونوں طرف سے تشدد اور عدم تحفظ کے طویل عرصے سے پیدا ہونے والے جرائم کے متاثرین کے لیے ہونی چاہیے جو ہر طرف گہرے دکھ اور مایوسی کا باعث بنا ہے۔
آئی سی سی کے اس فیصلے کے بارے میں بینجمن نیتن یاہو نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں انہوں نے کہا کہ ’آج شام اسرائیل پر حملہ ہوا ہے، دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت نے ایک فیصلے پر پہنچ گئی ہے جو یہود دشمنی کا نچوڑ ہے‘۔اسرائیلی وزیر خارجہ گبی اشکنازی نے کہا کہ یہ تحقیقات امن عمل پر اثر انداز ہوسکتیں ہیں۔دوسری جانب فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی عوام کیخلاف اسرائیل کی طرف سے کئے جانے والے جرائم، جو منظم اور بڑے پیمانے پر جاری ہیں، اس تحقیقات کو ضروری اور فوری بناتے ہیں۔اس فیصلے پر امریکا کی طرف سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ 2014 کی لڑائی میں تقریبا 2 ہزار 250 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری اور 74 اسرائیلی، جن میں زیادہ تر فوجی تھے۔