نگراں حکومت اپنی مدت پوری کر چکی ہے ، نگراں حکومت کے وزیر اعظم سمیت تمام وزراء کی کارکردگی کا احتساب کرنا مناسب نہیں ہے ، کیونکہ آئین کے مطابق نگراں وزراء کا کام صرف اور صرف روزمرہ امور کو سر انجام دینا تھا ، ان وزراء کے پاس ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی کوئی پالیسی بنانے کا اختیار نہیں تھا ، لیکن نگراں وزراء کی کارکردگی کا جائزہ پھر بھی لیا جا سکتا ہے ، کیونکہ ان میں سے بعض وزراء کی کارکردگی انتہائی حیران کن رہی ہے ، ڈاکٹر شمشاد اختر ، گوہر اعجاز ، محمد علی اور ڈاکٹر سیف نے اپنے دور میں ملکی خدمت کے جذبے سے اپنے فرائض سر انجام دیئے۔
نگراں وزیر تجارت و صنعت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے جس روز اپنی وزارت کا چارج سنبھالا ، ملکی برآمدات میں کمی ہو رہی تھی ، جولائی 2023 میں برآمدات میں 9 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ، اگست 2023 میں بھی ملکی برآمدات کو دھچکا لگا ، ستمبر 2023 میں وزیر تجارت نے ملکی برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات کو قابو کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کارروائی شروع کر دی ، سب سے پہلے غیر قانونی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر ہاتھ ڈالا گیا ، جس کے ذریعے سالانہ اربوں ڈالرز کا نقصان ہو رہا تھا ، حیران کن طور پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں 67 فیصد اضافہ ہوچکا تھا ، چار کروڑ آبادی کے ملک کے لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ 4 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 6 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی تھی ۔
گوہر اعجاز نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر گولا گھمانے والوں کو روکا ، گوہر اعجاز کو پتہ تھا کہ کاروباری افراد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر جو گولا گھما رہے ہیں اس سے ملکی معیشت کو دوہرا نقصان پہنچ رہا ہے ، پہلا پاکستان سے ڈالر افغانستان جا رہا ہے دوسرا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر ڈیوٹی بچائی جا رہی ہے اس سےپاکستانی روپے پر غیر ضروری دباو ڈالا جا رہا تھا ، اور ڈالر مسلسل اوپر جا رہا تھا ، یہاں تک کے ڈالر کی قیمت 260 روپے سے بڑھ کر 320 روپے ہو چکی تھی ، وزیر تجارت نے اعلان کیا کہ ڈالر کو 260 روپے پر لایا جائے گا جس کی اصل قیمت 240 روپے ہے ، دراصل افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے کاروباری افراد پاکستان سے ڈالر 240 روپے کا خرید کر اسے 320 روپے کا فروخت کر رہے تھے ۔
نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپنے دور میں دو بڑے اور تاریخی کارنامے سر انجام دیے ہیں ، ان کا پہلا کارنامہ تو یہ پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 20 ارب ڈالرز ہے جس میں 19 ارب ڈالرز چین اور ایک ارب ڈالرز پاکستان تجارت کرتا ہے ، وزیر تجارت نے گذشتہ چھ ماہ میں چین کے دو دورے کیے ، دونوں دوروں میں پاکستان کے 25 بڑے بڑے کاروباری افراد ان کے وفد کا حصہ تھے ، جن میں ٹیکسٹائل ، فارماسیوٹیکل ، فرٹیلائزرز ، سیمنٹ ، آٹو ، فوڈ اینڈ ایگریکلچر سے وابستہ بزنس مین شامل ہیں ، ان دوروں کے تمام اخراجات وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپنی جیب سے ادا کیے ، چین میں بڑی بڑی کاروباری کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی گئیں ، اور ان کو پاکستان میں اپنے کارخانے لگانے پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔
گزشتہ 180 دنوں میں پاکستانی مصنوعات کو چین کی منڈیوں تک آسان رسائی دینے کا مطالبہ شدت سے دہرایا گیا ، چین کے وزیر تجارت نے گوہر اعجاز کے مطالبے کو منظور کر لیا اور پاک چین آزادانہ تجارتی معاہدے کے تحت پاکستان سے اشیاء کی نئی لسٹ مانگ لی ، جس میں کئی سو نئی چیزیں شامل کی جائیں گی ، نگراں وزیر تجارت کی کوششوں سے پاک چین دو طرفہ تجارت میں بڑا بریک تھرو ہوا ، سرکاری اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ جولائی سے فروری 2024 تک پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے ، گذشتہ 75 سالوں میں چین کو پاکستان کی برآمدات محض ایک ارب ڈالرز کے ارد گرد گھوم رہی تھیں ، لیکن گذشتہ آٹھ ماہ میں چین کو پاکستان کی برآمدات ایک ارب ڈالرز سے بڑھ کر ایک ارب 80 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گئیں ۔
گوہر اعجاز نے اپنے دور میں خلیجی ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کرکے دوسرا بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے ، پاکستان گذشہ 15 سالوں سے خلیجی ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کامیابی نہیں ہو رہی تھی ، وزیر تجارت و صنعت گوہر اعجاز نے خلیجی ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا ، سیکرٹری سرمایہ کاری بورڈ سہیل راجپوت نے آزادانہ تجارتی معاہدے کی راہ میں حائل رکاٹوں کو دور کردیا اور سرمایہ کاری کے تحفظ سے متعلق اعتراضات ختم کردیے ، پاکستان پہلا ملک ہے جو خلیجی ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کرنے جا رہا ہے ، اس سے پاکستان کی سعودی عرب ، قطر ، بحرین کویت اور یو اے ای کے ساتھ دو طرفہ تجارت تو بڑھے گی لیکن یہ خلیجی ممالک پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی کر سکیں گے ۔
نگراں وزیر تجارت نے اپنے دور میں قومی خزانے پر ایک روپے کا بوجھ نہیں ڈالا ، گوہر اعجاز نے حکومت سے گاڑی ، بنگلہ ، پیٹرول ، ایئر ٹکٹس ، مراعات نہیں لیں بلکہ تمام سرکاری تحائف بھی توشہ خانہ میں جمع کرائے ، کیونکہ گوہر اعجاز نے پہلے دن ہی واضح کردیا تھا کہ وہ سرکار سے کچھ لینے نہیں بلکہ دینے آئے ہیں ، اس دوران انہوں نے تمام اعلی سطحی اجلاس وزارت تجارت میں کرنے کی بجائے اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں کیے اور ان کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کیے ، ملکی صنعتوں کو چلانے کے کیے انڈسٹریل ایڈوائزری کونسل ، ایکسپورٹ اور نان ایکسپورٹ ایڈوائزری کونسلز تشکیل دیے گئے ، جن کے اجلاس بھی سرینا ہوٹل میں ہوئے ، ان اجلاسوں میں ملک کے تمام بڑے کاروباری افراد شریک ہوئے ، جن میں عارف ، محمد علی ٹبہ ، ایس ایم تنویر ، شاہد سورتی ، شہزاد ملک ، شاہد علی حبیب ، فواد مختار ، جہانگیر بھٹی اور دیگر شامل ہیں۔
کاروباری برادری نے ملکی برآمدات کو بڑھانے اور صنعتوں کو چلانے کے لیے تجاویز تیار کی ہیں ، ان تجاویز پر عملدرآمد کے ذریعے ملکی برآمدات کو آئندہ پانچ سال میں ایک سو ارب ڈالرز تک پہنچایا جا سکتا ہے ، سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں ڈاکٹر گوہر اعجاز کی کارکردگی کو پرکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ، گزشتہ8ماہ کے دوران ملکی برآمدات میں مجموعی طور پر دو ارب ڈالرز سے زائد کا اضافہ ہوا ہے ادارہ شماریات نے جولائی 2023 سے فروری 2024 تک ملکی برآمدات کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں ، جس کے مطابق مالی سال کے آٹھ ماہ میں برآمدات 20 ارب 35 کروڑ ڈالرز سے زائد رہی ہیں ، جو گزشتہ برس 18 ارب 67 کروڑ ڈالرز تھیں ۔
سرکاری اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ستمبر 2023 سے فروری 2024 تک ہر ماہ ملکی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ستمبر میں برآمدات دو ارب 44 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 2 ارب 47 کروڑ ڈالرز ہوگئیں اکتوبر میں ملکی برآمدات دو ارب 38 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 2 ارب 69 کروڑ ڈالرز ہوگئیں نومبر میں برآمدات دو ارب 39 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 2 ارب 57 کروڑ ڈالرز ہوگئیں دسمبر میں برآمدات 31 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 2 ارب 81 کروڑ ڈالرز ہوگئیں جنوری میں بھی برآمدات 19 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 2 ارب 78 کروڑ ڈالرز ہوگئیں اور فروری میں برآمدات دو ارب 18 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر دو ارب 57 کروڑ ڈالرز ہوگئیں۔