لانگ مارچ فائرنگ کے ملزم کا جنونیت بھرا اعترافی بیان افسوسناک اور حساس صورتحال کا عکاس
خصوصی رپورٹ: احمد منصور | سیاست میں تشدد کی پرورش، مذہب کارڈ کا استعمال، عدم برداشت: ایسی سیاسی و جمہوری جدوجہد جس میں نہ سیاست ہے اور نہ جمہوریت؛ کیا یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا آخری کاری وار نہیں؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
سانحات کی افسوسناک تاریخ سے بھرے ملک کو غیر سیاسی، عدم برداشت کی حامل سوچ پروان چڑھانے والوں نے نئے سانحے کے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔فساد اور انتشار کا پیٹرول چھڑک کر ماحول تیار کیا جاچکا ہے، خدا کا شکر کہ اس پیٹرول کو وزیرآباد سے چنگاری دینے کی سازش کامیاب نہیں ہو سکی ورنہ اس وقت تک بہت کچھ جل کر خاکستر ہوچکا ہوتا۔ لیکن کب تک؟ کیا معلوم (خاکم بدہن) خدانخواستہ اگلا وار ناقابل تلافی ہو۔
ریاست پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار فیئر کا وار چل چکا ہے جس میں اپنے پرائے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی۔ کون دوست، کون دشمن، ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے، عوام کو اپنی افواج سے دور کرنا، انہیں ہر چھوٹے بڑے واقعے اور مشکل و پریشانی کا ذمہ دارقرار دینا؛ اس جنگ کا سب سے مہلک اور آخری وار ہے جسے انتہائی منظم انداز سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس وار سے پہلے ریاست کی جڑیں ہر حوالے سے خاص کر معیشت کو ٹارگٹ کر کے کمزور کی گئیں۔
عوام کے ایک بڑے گروہ کے اندر جو زہر بھری سوچ رچائی جاچکی ہے، اس کے ردعمل میں مزید جنونیت پروان چڑھ رہی۔ لانگ مارچ فائرنگ کے ملزم نوید کا سامنے آنے والا اعترافی بیان اسی افسوسناک اور حساس صورتحال کی عکاسی کررہا ہے۔ اعترافی بیان میں ملزم کا کہنا ہے کہ ’’عمران خان نبی ﷺ کا حوالہ دیکر پیغام پھیلانے کی بات کرتے تھے، عمران خان کے مطابق جِس طرح نبیﷺنے لوگوں کو تبلیغ کی دعوت دی، اسی طرح آپ میرا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ عمران کے اِس بیان سے لگتا تھا کہ وہ چودہویں صدی کے نبی ﷺ ہیں(نعوذ باللہ)۔ مجھے یہ چیز اچھی نہیں لگی، حضور ﷺخاتم النبین ہیں، میں ڈاکٹر اِسرار کے بیان سنتا ہوں، مدینہ کی ریاست ایک ہی ہے جو نبی ﷺ نے بنائی ہے اور وہ سعودی عرب میں ہے۔ ہمیں دوسری ریاستِ مدینہ نہیں چاہیے۔ عمران خان کیسے ریاستِ مدینہ کی بات کرسکتا ہے؟ اذان کے وقت بھی کنٹینر سے میوزک بج رہا تھا، میں نے20ہزار میں پسٹل وزیر آباد سے خریدا، میرا ٹارگٹ صرف عمران خان تھا۔ عمران خان کے گارڈز نے 3-5گولیوں سے مجھ پر واپس فائرنگ کی‘‘
ملزم کے اعترافی بیان کے بعد سنجیدہ اور حساس بحث کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ ملزم کے اس طرح کے نظریات کو تحریر کیا جانا عام حالات میں یقیناً انتہائی نامناسب ہے لیکن اب جب پانی سر سے گذر چکا ہے توریت میں سر دبا کر اس عفریت اور ففتھ جنریشن وار فیئر کے کاری ترین وار کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ یقینا یہ ایک ایسا حساس معاملہ ہے جس پر گفتگو تمام تر احتیاط کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کی جانی چاہیے لیکن وطن عزیز جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں اس مذہبی جنونیت، سیاسی عدم برداشت کا راستہ روکنے کے لیے یہ باتیں کرنا اب ناگزیر ہے اور ایک وسیع البنیاد قومی سطح کی بحث ریاست کی سرپرستی میں شروع ہونی چاہیے۔
ضرور پڑھیں :عمران خان پر قاتلانہ حملہ، ایک شخص جاں بحق، سابق وزیراعظم سمیت7 افراد زخمی
حقیقت سامنے ہے، پاکستان کو ایک مرتبہ پھر انتہاپسندی اور مذہبی جنونیت کا سامنا ہے، یہی وہ وجہ تھی جس کے لئے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا تاکہ معاشرے میں پُرتشدد اور نفرت آمیز رویے پر قابو پایا جاسکے۔ یہی وہ وجہ تھی کہ ہمیشہ یہ کہا گیا کہ مذہب کارڈ کو سیاسی مقاصد کے لئے مت استعمال کیا جائے لیکن تحریک انصاف نے اپنی حالیہ مہم جوئی کا آغاز ہی اَمر بالمعروف کے عنوان سے کیا، حتیٰ کہ اپنے خلاف ووٹ ڈالنے کو شِرک سے تشبیہہ دی اور پھر بار بار دین کے حوالے دیے جاتے رہے۔ بار بار کہا گیا کہ اللہ نے ہمیں نیوٹرل رہنے کا اختیار ہی نہیں دیا، پوری کیمپین کو جِہاد کا نام دیا گیا، ہر بات کو ’مذہبی ٹَچ‘ دینے کی کوشش کی گئی۔ یاد رہے کہ اسی مذہبی جنونیت کے ہاتھوں سلمان تاثیر اپنی زندگی کھوچکے ہیں، احسن اقبال کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
سیاسی و جمہوری جدوجہد میں سیاست کا دور دور تک واسطہ بھی نہیں رہا اور جمہوری رویے بھی کہیں نظر نہیں آرہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمیں مذہب کارڈ ترک کرکے تمام متشدد رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے ورنہ تقسیم، نفرت اور انتہا پسندی سے معاشر ے بکھر جاتے ہیں۔ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم اس انجام سے اب بہت دور نہیں رہے۔ آئیں سب مل کر بچت کا راستہ تلاش کریں، اس حوالے سے پیغامِ پاکستان ہمارے لیے مشعل راہ کے طور پر موجود ہے، ریاست اور معاشرے کی بقاءکا واحد حل و ضامن تحمل، برداشت اور رواداری ہے، یہ ہی راستہ ہمیں آگے لے جاسکتا ہے۔اللہ پاکستان کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔