(تحریر عامر رضا خان )پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر گجرات کی حدود میں قاتلانہ حملہ ہوا 3 نومبر کی یہ خبر آئی تو جیسے ملک بھر میں بھونچال آگیا لیکن سوشل میڈیا پر جو سونامی آیا اس نے سچ اور حقیقت کو اپنے ساتھ بہا لیا ایک شور تھا کوئی اسے ایجنسیوں کا کام قرار دے رہا تھا کسی کی انگلی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر اٹھی اور کسی نے اسے دشمن ملک کا کارنامہ قرار دیا لیکن کسی نے یہ کوشش نہیں کی کہ اس کہانی کے اصل حقائق تک پہنچا جائے ۔
بلا شبہ عمران خان ہمارے ملک کی ایک بڑی سیاسی حقیقت ہیں ان کی فین فاوولنگ بھی بہت ہے لیکن جس پائے کے وہ لیڈر ہیں ان پر ہوئے حملے کی سنگینی خود ان سمیت ان کے ہمدرد بھی شائد سمجھ نہیں پائے اسی لیے جتنے منہ اتنی باتیں منظر عام پر آنے لگیں کسی نے نہ ملکی وقار کا خیال کیا نہ معاملے کی حساسیت کا ادراک رہا خود فواد چودھری جو اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں انہوں نے بھی انتقام انتقام کے نعرے لگائے ، پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں جن میں محترمہ شیریں مزاری صاحبہ بھی شامل ہیں جذبات کی رو میں بہہ گئی اور ایسے ٹوئٹ کیے جن سے یہ تاثر گیا کہ شائد پاکستانی عوام خد انخواستہ اداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہوں۔
اس مارا ماری میں میں سیلوٹ پیش کرتا ہوں تھانہ کنجاہ کے پولیس اہلکاروں کو جنہوں نے موقعہ سے پکڑے گئے مبینہ ملزم نوید کا اعترافی بیان نا صرف بر وقت ریکارڈ کیا بلکہ اسے نشر بھی کردیا اس کارروائی کا فقط ایک مقصد تھا کہ حالات کو دشمن کے دئیے بیانئے سے ہٹا کر حقائق سامنے لائیں جائیں لیکن میری اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہیٰ نے اس قابل تعریف اقدام کے خلاف سخت نوٹس لیا اور پولیس ملازمین کو معطل کرنے کی سفارش کردی۔
اسے آپ اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان پر جس جگہ حملہ ہوا وہ گجرات کا علاقہ ہے جو پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ کا آبائی شہر ہے پنجاب حکومت پاکستان تحریک انصاف کی طفیل حکومت کو چلا رہے ہیں چیئرمین تحریک انصاف کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہوتی تھی ایک سنیئر صحافی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حملے سے 24 گھنٹے قبل سینیٹر اعجاز چودھری نے حملے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا ، پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل ووڈا نے تو واشگاف الفاظ میں اس مارچ کو خونی مارچ قرار دیا تھا اور لاشوں کے گرنے کی پیش گوئی کی تھی سب سے پہلے تو تفتیش انہی سے شروع کی جائے۔
اس حملے کی سنگینی کو سمجھے بغیر اسد عمر صاحب نے چیئرمین تحریک انصاف کا جو بیان بتایا اس کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف ، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور پاک فوج میں میجر جنرل رینک کے ایک افسر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا اس ایک بیان سے واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف اس حملے کی حقیقت تک پہنچنے کے بجائے معاملات سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے پھر اصل حقیقت کیا ہے ؟
اسے جاننے کے لیے ہمیں مرکزی ملزم نوید کے بیانات کا جائزہ لینا ہوگا گو چودھری پرویز الٰہی کے منع کرنے کے باوجود اس کے بیان کے دوسرے حصے کے مزید چھ کلپ جاری کئے گئے اور یہ احتیاط بھی کی گئی کہ کوئی کلپ ٹوئیٹر کی مقررہ کردہ حد ویڈیو دو منٹ بیس سیکنڈ سے زیادہ نہ ہو یعنی عوام کو ان کلپس کو پوسٹ کرنے میں آسانی ہو ان ویڈیوز میں ملزم کسی افسر کے سوالات کے جو جوابات دے رہا ہے اس میں بہت سے انکشافات پوشیدہ ہیں جنہیں ڈی کوڈ کرنا ہماری ایجنسیز کیلئے کسی بھی طرح مشکل نہیں ہیں اس کے بیانات کے چیدہ چیدہ نقاط یا انکشافات یوں ہیں ۔
مجھے پکڑنے والے ایک شخص کو کنٹینر سے آئی گولی لگی میں نے اسے گرتے دیکھا
کنٹینر سے مجھ پر فائرنگ بھی کی گئی جو ایک شخص اور درخت میں لگی
میں نے فائر کرتے وقت لبیک یا رسول اللہ کا نعرہ لگایا
گھر والوں کو بتا کر ایا تھا کہ ایک اہم کام کے سلسلے میں وزیر آباد جا رہا ہوں
میں نے اپنی فیملی سے کہا کہ میرے مشن کی کامیابی کیلئے دعا کریں
سعودی عرب اس لیے چھوڑا کہ اس نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا
میں مذہبی پوسٹس سننے اور شیئر کرنے کا عادی ہوں
ڈاکٹر اسرار کو بھی سنتا ہوں جو بات اچھی لگے اس فیس ب±ک پر شیئر کرتا ہوں
میں نے اپنا ایک بیان اپنے موبائل میں بھی ریکارڈ کر رکھا ہے
میرے موبائل میں عمران خان کی خلاف مذہب باتوں کا ریکارڈ موجود ہے
عمران خان نے نبی ہونے کا بھی اشارہ دیا ریاست مدینہ بنانے کی بھی بات کی
ان تمام باتوں کو غور سے پڑھیں کیا یہ ایک مذہبی جنونی کے الفاظ نہیں ہیں وہ بتا رہا ہے کہ اس نے پستول کہاں سے کتنے کا خریدا اور اس کے پاس کتنی گولیاں تھیں اس کے بتائے تمام پتے اور افراد حقیقی ہیں کیا اب بھی کسی اور پر اس حملے کا الزام دھرنے کی کوئی گنجائش باقی ہے لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف اور پنجاب حکومت نے اس حملے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ نہ ملک کیلئے اچھا ہوگا نہ عوام کیلئے۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم سے درخواست کروں گا عمران خان کی عیادت کرنی چاہئے، قمر زمان کائرہ