امریکا میں صدارتی انتخابات پانچ نومبر کو ہوں گے امریکہ میں صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 میں سے 270 الیکٹورل کی حمایت حاصل کرنی ہوتی ہے۔ جس کے لیے 78 سالہ رپبلکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور 60 سالہ ڈیموکریٹ اُمیدوار کملا ہیرس کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان کی بھی نظریں اس الیکشن پر جمی ہوئی ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں اگلا مکین کون ہوگا۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کبھی مستحکم نہیں ہوئے اس میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ رہا ہے پاکستان اور امریکا 75 سال سے ایک دوسرے کے اتحادی ہیں ، اس سلسلے میں امریکا نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کیلئے کافی حد تک ثالت کا کردار بھی ادا کیا ہے ۔ پاکستان جب 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا تو امریکا ان ممالک میں شامل تھا جس نے فوراً پاکستان کو تسلیم کیا اور اس وقت کے امریکی صدر ہیری نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو مبارک باد کا پیغام بھی بھیجا تھا۔
امریکا میں سات ریاستیں ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن کو ’سوئنگ سٹیٹس‘ کہا جاتا ہے جن کے پاس وائٹ ہاؤس کی چابیاں ہیں۔ پینسلوینیا میں ایک انتخابی جلسے کے دوران جولائی میں ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس ٹی وی پر لائیو دکھایا گیا تھا ، ٹرمپ گولی لگنے کے باوجود مکا لہرا کر کھڑے رہے تھے۔ ان سات ریاستوں میں کملا ہیرس اور ٹرمپ کی توجہ مشی گن ، وسکونسن اور پنسلیونیا پر مرکوز ہیں جن کے نتائج سے بائیڈن گزشتہ انتخابات میں ٹرمپ کو شکست دے پائے تھے۔ امریکا میں کوئی انقلاب نہیں آرہا وہاں معمول کے انتخابات ہیں ان کی معشیت دنیا کی مضبوط ترین معشیت ہے اور سپر پاور کا سٹیٹس بھی برقرار ہے ان کو ایسا لیڈر چاہے جو یہ سب برقرار رکھ سکے ۔ پاکستانی رہنماؤں نے ایک مرتبہ پھر اپنی نظریں امریکا کے الیکشن پر جمائی ہوئی ہیں خصوصا پاکستان تحریک انصاف اس میں گہری دلچسپی لیتی نظر آرہی ہے ۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے جب 2019 میں امریکا کادورہ کیا تھا تو اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر تھے اور انہوں نے صحافیوں کے سامنے عمران خان کو میرے اچھے دوست کہہ کر پکارا تھا۔ پھر 2022 کو عمران خان کو جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت چھوڑنا پڑی تو انہوں نے امریکا پر حکومت گرانے کا الزام عائد کیا اور ایک سال جلسے جلوسوں میں میر صادق اور میر جعفر کے قصے سناتے رہے ۔اس کے باوجود پی ٹی آئی کے کچھ رہنما سمجھتے ہیں کہ اگر ٹرمپ حکومت میں آگیا تو عمران خان کی مشکلات کم ہوجائیں اور ٹرمپ اپنے دوست کو رہائی دلوا دیں گے ۔ کیونکے پچھلے ماہ اکتوبر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے 60 سے زائد ارکان نے امریکی صدر جوبائیڈن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ امریکا اپنا اثر روسوخ استعمال کرکے اور پاکستان میں سیاسی قیدیوں خاص کر عمران خان کو رہائی دلوائے جو ایک سال سے مختلف مقدمات میں قید کاٹ رہے ہیں ۔
یہ الیکشن امریکا کی تاریخ کا سب سے مشکل ترین الیکشن ہے جس میں دونوں امیدواروں کے درمیان انتہائی کانٹے کا مقابلہ ہے کون جیتے گا کون ہارے گا یہ تو آنے والا وقت ہی طے کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی صورت میں الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ امریکا پاکستان کی پالیسی میں کوئی خاص یا بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے یا نہیں۔ پاکستان ایران اور چائینہ تعلقات پر الیکشن کتنا اثر انداز ہوگا اس پر بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔