عمران خان کیلئے تو’این آر او‘ہوچکا؟
اظہر تھراج
Stay tuned with 24 News HD Android App
اب مارشل لاء نہیں لگے گا۔
پریس کلب میں موجود چند صحافیوں نے حیرت زدہ نظروں سے دیکھا تو وہ گویا ہوا ”عوام اور دنیا میں فوج پہلے ساکھ کھو چکی ہے، مارشل لائی حکمرانوں کے بارے میں برا تاثر پایا جاتا ہے، اب فوج مزید رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں“
چائے کی چسکی لیتے ہوئے پھر بولا کہ پاکستان کا میڈیا، سوشل میڈیا بہت بڑی رکاوٹ ہے، جس پر آہستہ آہستہ کنٹرول حاصل کیا جا رہا ہے۔
اگر مارشل لاء نہیں تو مچلتی مچھلی پانی کے بغیر کیسے رہ سکتی ہے؟ ہماری سوال بھری نظروں کو بھانپتے ہوئے بولا ”یہ کوئی مسئلہ نہیں، عوامی نمائندے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں، اب کی بار“ یہ ”عدالت کے راستے سے کام لیں گے اور ایک ایسی حکومت لائیں گے جو ان کے اشاروں پر کام کرے گی، ان کو اقتدار کے بغیر ہی وہ حاصل ہوجائے گا جو اقتدار میں رہ کر کرتے رہے ہیں“ یہ باتیں الیکشن 2018 سے پہلے کی ہیں جب تحریک انصاف بھرپور انتخابی مہم چلا رہی تھی اور مسلم لیگ ن کے رہنما ء عدالتوں کے چکر کاٹ رہے تھے، الیکشن ہوا اور عمران خان وزیر اعظم بن کر اقتدار میں آگئے، بے نامی جائیداد کی طرح اس ”بے نام“ صحافی کی کہی گئی باتیں ایک ایک کرکے سچ ہوتی جارہی ہیں،پھر 2023 ء کے انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے ,جو ہارے تھے وہ جیت گئے اور جیت کر سوئے تھے وہ صبح ہارچکے تھے ۔
مطلوبہ نتائج حاصل کرنے والے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ،اب ایک بار پھر سیاست کروٹ لے رہی ہے،موسم کے تیور بدل رہے ہیں،بھارت سے چلنے والی ہواؤں نے جہاں لاہور کی فضا کو گندا کردیا ہے تو اس کےبرعکس خیبر پختونخوا کی طرف سے آنیوالے ’بگولے‘نے اسلام آباد میں چھائے کالے بادلوں کو ادھر ادھر کردیا ہے اور مطلع کچھ صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔
تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو ہمیں یاد ہے سب ذرا ذرا۔ ٰٰ بات کریں سیاست کی تو اب بھی وہی منظر دوبارہ دہرایا جارہا ہے،خلیل الرحمان قمر کے لکھے گئے ڈراموں کی طرح سکرپٹ اور ڈائیلاگ وہی دہرائے جارہے ہیں لیکن کردار بدل چکے ہیں۔
ضرورپڑھیں:کتے
بشریٰ بی بی عدالت میں روئی ہیں اور خوب روئی ہیں،اپنے اور پرائے وکلاء سے گلہ کرتی نظر آئی ہیں ،کہتی ہیں کہ پاکستان میں عمران خان اور مجھے ناانصافی پر سزا دی گئی،انصاف تو ہے ہی نہیں میں انصاف کے لیے نہیں آئی،میرا کمبل اور سامان گاڑی میں ہے، جب آپ کہیں گےجیل جانے کو تیار ہوں،ہمارے وکلاءسمیت تمام وکلاصرف وقت ضائع کرتے ہیں،جو اندر انسان بیٹھا ہے کیا وہ انسان نہیں ہے،کسی جج کو نظر نہیں آتا،میں اب اس عدالت میں نہیں آؤ ں گی،یہاں صرف ناانصافیاں ہوتی ہیں،یہ آنسو بے بسی کے تھے یا ڈرامائی؟ اس کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ وکیل تو وکیل ،بشریٰ بی بی ’موکل‘بھی کام نہیں کررہے،کپتان کے مقدمات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہونے جارہا ہے،کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی ہے۔
یہی بات زرتاگل بھی کرتی نظر آتی ہیں ،کہتی ہیں کہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے،لگتا ایسے ہے کہ جس طرح لانگ مارچ میں عمران خان نے خواتین کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا ایسے ہی اب وہ ’عورت‘کو اپنی رہائی کیلئے استعمال کررہے ہیں۔سکرپٹ رائٹرز نے پوری طرح آگاہ کردیا ہے ، اب تمام چیزیں اسی سکرپٹ کے طور پر استعمال ہوں گی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کیلئے این آر او ہو چکا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں، اچانک تبدیل ہوتے حالات اور حکومتی نمائندوں کے بیانات سے بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ ہوگیا ہے،پی ٹی آئی جو 26 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کررہی تھی اب کچھ کہتی بھی نہیں کچھ کرتی بھی نہیں، علی امین گنڈا پور کی بڑھکیں محض گیدڑ بھبھکیاں ثابت ہورہی ہیں کیونکہ وہ بھی ’مینیج‘کرلئے گئے ہیں ، ادھر پارلیمنٹ میں دھڑا دھڑ قوانین پاس ہورہے ہیں، ان قوانین میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اضافہ بھی شامل ہے۔
جہاں حکومت تیزی دکھارہی ہے تو بندوبست کرنے والے اس حکومت کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں،یہ حکومت مدت پوری کرتے دکھائی دیتی ہے،سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض ہے جو اسی گارنٹی پر ملا ہے کہ موجودہ سسٹم کو نہیں چھیڑا جائے گا، اسٹیبلشمنٹ کیلئے اس نظام کو چلانا مجبوری ہے، اب پھر سوال وہی آجاتا ہے کہ اس میں عمران خان کیلئے این آر او کہاں سے آگیا؟ عمران خان کی اہلیہ کی رہائی اور پھر ان کا فعال ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور ان کا یہ رونا دھونا بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ جب سابق وزیر اعظم نواز شریف جیل میں تھاتو اچانک صحت بگڑتی ہے، میڈیا پر شور مچتا ہے، مریم نواز کا خاموش ٹوئٹر اکاؤنٹ سابق وزیر اعظم کی صحت کے لئے فکرمند ہو جاتا ہے، میڈیا پر پل پل کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کے بازو میں درد ہے، سانس لینے میں تکلیف ہے، دردناک انداز میں خبریں پیش کی جاتی ہیں، منظر بدلتا ہے اور ان کوسروسز ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے،دوسری جانب جیل جانیوالے شہبازشریف کوبھی دنیا کی تمام آسائشیں مل جاتی ہیں،عمران خان کی حکومت کو سہارا ملتا ہے اور پہلے نواز شریف باہر جاتے ہیں،پھر مریم نواز بھی ان کے پیچھے پیچھے چلی جاتی ہیں،کچھ عرصہ بعد سہارے پر چلنے والی عمران حکومت کے نیچے سے بیساکھیاں کھینچی جاتی ہیں اور ’بدعنوان‘کہلائے جانیوالے شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں ۔
اس ملک میں این آر او ہونا کوئی نئی بات نہیں ،2000 ء کے بعد کی سیاست پر نظر ڈالیں تو این آر او ہوا تھا پھر 2007 میں بھی ایسا ہوا تھا،خود عمران خان حکومت نے ٹی ایل پی سے این آر او کیا اور آج تک وہ ’خفیہ معاہدہ‘سامنے نہیں آیا جو ان کو اسلام آباد جانے سے روکا گیا تھا ۔
بشریٰ بی بی ا ب عمران خان کیلئے دہائی دیں گی ،کبھی ظلم و ستم کی بات کریں گی تو کبھی ان کی صحت کاواویلا کیا جائے گا،عمران خان کے یوٹیوبرز تو پہلے ہی اڈیالہ جیل سے کئی نام نہاد لاشیں نکال چکے ہیں۔ایسے ہی ماحول بنایا جائے گا اور ایک دن وہی ہوگا جو نوازشریف کے ساتھ ہوا تھا ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر