(24نیوز)پاکستان فلم انڈسٹری کے وراسٹائل پلے بیک گلوکارمسعود رانا کو مداحوں سے بچھڑے 29 برس بیت گئے،انہوں نے لگ بھگ تین عشروں تک پلے بیک سنگنگ پرحکمرانی کی،طویل گائیکی کیریئر کے دوران بے شمار سُپرہٹ فلمی گانے گائے جن میں ”ٹانگے والا خیرمنگدا“نے مقبولیت کی بلندیوں کوچھوا۔
9جون 1938ء کومیرپور خاص سندھ میں پیدا ہونے والے مسعود رانا نے فنی سفرکاآغاز ریڈیوپاکستان سے کیااوراپنے طویل گائیکی کیریئر کے دوران بے شمار سُپرہٹ فلمی گانے گائے،وہ محمدرفیع سے بے حدمتاثرتھے جس کی بناپرانہیں پاکستانی محمد رفیع کے لقب سے بھی پکاراجاتا تھا۔
مسعودرانانے 1955ء میں کراچی میں ایک میوزک گروپ بھی بنایاجس میں گلوکاراخلاق احمد اورندیم بیگ جیسے بڑے نام شامل تھے،فلم انڈسٹری میں انہیں اداکار ساقی نے پروڈیوسر وڈائریکٹر شہزاد اقبال کے ذریعے متعارف کروایا اورپہلا فلمی گیت فلم”انقلاب“ کے لیے گایالیکن اصل شُہرت فلم”بنجارن“سے ملی جس کے بعد ان کا شمار پنجابی اور اُردوکے معروف گلوکاروں میں ہونے لگاتھا۔
مسعودرانانے فنی کیریئرکے دوران 700 سے زائد گانے ریکارڈ کروائے جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے،ان کے مقبول گانوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں فلم”آئینہ“کا گانا ”تم ہی ہو محبوب میرے میں کیوں نہ تم سے پیار کروں“ فلم”بدنام“کا گانا”کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے“، فلم ”چاند اور چاندنی“کا گانا ”تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے“سمیت دیگر شامل ہیں۔
اگرایک طرف”ٹانگے والا خیر منگدا“کی گونج گلی گلی سنائی دیتی تھی تو دوسری طرف”تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں“نےبھی دھوم مچا رکھی تھی،فلم ”ہمراہی“ کے تمام نغمات بے حد مقبول ہوئے اورمسعود رانا ان گیتوں میں فن کی بلندیوں پر نظر آئے،جھوم اے دل میرا جان بہار آیا ہے،رکھ دیا قدموں پہ دل نذرانہ،یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے،عاشقاں توں سوہنا مکھڑا لُکان لئی،بڑی مہربانی بڑی ہی عنایت،بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا،بُھل جاندے نیں سب غم دُنیادے،فلم”نیند ہماری خواب تمہارے“کا گانا میرامحبوب آگیامن میرا لہرا گیااور فلم”دل لگی“کا گانا”آ گ لگا کر چھپنے والے سن میرا افسانہ“جیسے گانے بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
مسعودرانا نے کئی مشکل طرز کے گانے بھی ریکارڈ کرائے جو سُننے والوں کو آج بھی سحر میں جکڑ لیتے ہیں،انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلم ”آگ کا دریا“ میں شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کے نغمے”اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں“کو جس خوب صورتی سے گایا وہ ان کی فنی صلاحیتوں کی ایک روشن مثال ہے، دو فلموں میں انہوں نے باقاعدہ ہیرو کا کردار بھی ادا کیا جن میں ایک اُردوفلم”شاہی فقیر“اوردوسری پنجابی فلم”دومٹیاراں“ تھی،ملی نغمہ”ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح“بھی مسعود کی فنکارانہ عظمت کا مظہر ہے۔
ہدایت کارایم صادق کی پاکستان میں پہلی اورآخری فلم ”بہارو پھول برساؤ“میں مسعود رانا کا گانا ”میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یاد ملے گا“ بھی بہت مقبول ہوا تھا۔اس کے علاوہ الف لیلٰی،بنجارن،بدنام،آرزو،ہمراہی،نازنین،مترئی ماں،ذیلدار،مورچہ، گبھرو پُت پنجاب دے،لنگوٹیا،مکھڑا چن ورگا،شیراں دی جوڑی،جوانی مستانی،روٹی اور بے شمار فلموں میں بھی مسعود رانا کے گیت مقبول ہوئے تھے۔
اُردوکے ساتھ ساتھ مسعودرانا نے پنجابی فلموں کے لئے بھی کئی مقبول گانے گائے جن میں ٹانگے والا خیر منگدا،سجناں نے بوہے اَگے چِک تان لئی،سوچ کے یار بناویں بندیا،تیرے ہتھ کی بے درد ے آیا پھلاں جیا دل توڑ کے،دل دیاں لگیاں جانے نہ،یا اپنا کسے نوں کر لے یا آپ کسے دا ہو ویلیا،سجنو اے نگری داتا دی اور یارمنگیا سی ربا تیتھوں رو کے کیہڑی میں خدائی منگ لئی گا کر خود کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر کر لیا۔
مسعودرانا ایک درویش صفت انسان تھے، کامیاب فلمی کیریئرکے باوجود لاہور میں اپنا ذاتی مکان تک نہیں بنا سکے تھے،انہوں نے 1960ء کے اوائل سے1980ء کے اواخر تک فلموں کے لئے گانے گائے،فلموں کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن کے لئے بھی بہت سے نغمے اورملی نغمے گائے،فلم”مجاہد“ میں ”جاگ اُٹھا ہے سارا وطن“بھی بے حدمقبول نغمات میں شامل ہیں،ان کی آواز میں کئی نعتیں بھی بہت مقبول ہوئیں جن میں ”کرم کی اِک نظر ہم پر خدارا یا رسول اللہ“،”وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا“اور”مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا“شامل ہیں۔
مسعود رانا عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باعث 4 اکتوبر 1995ء کو خالق حقیقی سے جاملے تھے مگر ان کے گائے ہوئے گانے ہمیشہ فضاؤں میں گونجتے رہیں گے۔