میں اس بلاگ کو جلد از ختم کرنا چاہتا تھا کہ مجھے علم تھا کہ جیسے جیسے وقت کا دھارا آگے بڑھے گا ویسے ویسے یہ راز کہ میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کی دوڑ سے باہر ہوتے جائیں گے کا تاثر مضبوط ہوتا چلا جائے گا ، ابلاغیات کے مروجہ اصولوں کے تحت جو خبر جتنی جلدی عوام تک پہنچادی جائے وہ اتنا ہی اچھا صحافی کہلاتا ہے اور اسی ریس نے سوشل میڈیا کی بلٹ ٹرین پر سب کو سوار کر رکھا ہے کہ پہلے میں ،پہلے میں والا معاملہ ہے جو کبھی ٹرین کے حوالے سے ہی پہلے آپ، پہلے آپ والا معاملہ ہوا کرتا تھا ۔
اس موضوع پر قسط اول لکھنے کے بعد قسط دوم لکھنے میں تاخیر میں میری سستی سے زیادہ سپریم کورٹ کی سرعت عدل کا عمل دخل ہے کہ سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے سماعت شروع ہوئی،دو دن میں عدالت نے عین ہماری امیدوں کے مطابق فیصلہ سنایا اور الیکشن میں تاخیر کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مارچ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے 14 مئی کی تاریخ دے دی، یہ فیصلہ صرف اُن لوگوں کے لیے بھونچال تھا جنہوں نے اس سے الٹ امیدیں باندھ رکھیں تھیں البتہ جن لوگوں کو تین رکنی بنچ کے ججز کی جانب سے ماضی کے طرز عمل کا ذرا سا بھی ادراک تھا وہ ایسے ہی فیصلے کی توقع کر رہے تھے جیسا کہ فیصلہ سنایا گیا اس سے سپریم کورٹ میں دراڑ بڑی واضح ہوئی ہے اور اگر مجھے معذرت کے ساتھ اجازت دی جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تین رکنی بنچ کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف جو 6 رکنی بنچ بنایا گیا اس نے ناصرف اس تقسیم کو واضع کیا بلکہ یہ بھی تاثر بھی بنایا جا رہا ہے کہ 15 میں سے صرف چھ ارکان ہی چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کے ساتھ ہیں باقی کے ججز اس وقت بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کم از کم سو موٹو والے اختیار کے حوالے سے حق بجانب مانتے ہیں ۔
ضرور پڑھیں :نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کی دوڑ سے باہر ہوگئے
یہ عدالتی موشگافیاں ہیں قانون اور آئین کے گنجلک رستے ہیں جہاں ہمیں نہیں جانا کون صحیح ہے اور کون غلط آنے والے دنوں میں یہ مزید واضح ہوگا ، یہاں ہم بات کر رہے تھے کہ میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں اور کل ہونے والے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کی میڈیا ٹالک نے میرے اس بیانیے کو مزید تقویت دی ہے ۔ میاں نواز شریف نے جس طرح عدلیہ کو للکارا ہے وہ انہی کا خاصہ اور تجربہ ہے بقول رضی دادا کہ " میاں نواز شریف اس کھیل کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں جو 1997 میں ایسی ہی صورتحال کو کامیابی سے اپنے حق میں مولڈ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے" 1997 میں سجاد علی شاہ اور چند ججز ایک جانب اور جسٹس( ر )سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں 10 ججز ایک جانب تھے سپریم کورٹ میں دو دو کازلسٹیں اور بنچز کام کر رہے تھے، چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک فیصلہ کیا جاتا تو 10 رکنی بنچ دوسرا فیصلہ کر کے پہلے فیصلے کو ختم کر دیتا ،یوں یہ جنگی صورتحال میاں نواز شریف کی کامیابی پر ختم ہوئی۔
گو دو سال بعد 1999 کو مارشل لاء کے باعث میاں نواز شریف کو بھی زندان میں ڈال دیا گیا لیکن وہ عدالت اور انتظامی سطح پر فاتح بن چکے تھے جو ناصرف چیف جسٹس کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے بلکہ ایوان صدر میں بیٹھے ماسٹر مائنڈ سردار فاروق لغاری سے بھی استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوئے ۔یوں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف لنگوٹ کس کر ایک مرتبہ پھر ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے اترے ہیں جس قسم کی صورتحال میں وہ پہلے بھی کامیابی حاصل کر چکے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں :عمران خان بمقابلہ مریم نواز، مقابلہ حُسن کون جیتا ؟
میں نے قسط اول میں 2018ء تک کے حالات بیان کیے تھے کہ کس طرح عمران خان کے سہولت کاروں نے مکڑی کا وہ جال بنایا جس سے میاں نواز شریف نکلنے کے لیے جتنا زور لگاتے اُتنا ہی اس میں پھنستے چلے گئے ،الیکشن میں آر ٹی ایس سسٹم کو 4 گھنٹے کے لیے مبینہ طور پر بند کیا گیا کیونکہ اگرایسا نہ کیا جاتا تو میاں نواز شریف واضح اکثریت حاصل کرتے نظر آرہے تھے، ستم ظریفی دیکھیں کہ پراجیکٹ عمران خان پر تمام وہ کردار کام کر رہے تھے جنہیں اُن کے عہدوں پر لگایا بھی نواز شریف نے ہی تھا ، جنرل (ر) باجوہ ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور فیض حمید کا پراجیکٹ عمران خان میں کیا کردار رہا یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اس پراجیکٹ کے عروج میں جب دورِ عمرانی کا آغاز ہوچکا تھا جس نے بھی اس سازش کی نشاندہی کی اسے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا نامور صحافیوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑی اور بہت سوں کی نامعلوم افراد کی مار کھانا پڑی۔
نواز شریف کو دیوار سے لگایا گیا وہ اپنی بیمار بیوی کو چھوڑ کر اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے پاکستان میں گرفتاری دینے کے لیے آئے تو ڈیجیٹل اور مین سٹریم میڈیا پر انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کے مرحومہ کلثوم نواز کی کینسر کے خلاف جنگ کو بھی ڈرامہ قرار دیا گیا اور پھر وہ وقت آیا جب میاں نواز شریف کی بیماری عمران حکومت کو اپنے لیے سیاسی پھانسی کو طوق نظر آنے لگی تو حکومت کی جانب سے خصوصی میڈیکل بورڈ بنایا گیا عمران خان کے قریبی ساتھی ڈاکٹر فیصل ، پنجاب کی صوبائی وزیر یاسمین راشد اور ڈاکٹر شمسی (کراچی) کو اس پینل میں شامل کیا گیا اس پینل نے یہ تصدیق کی کہ میاں نواز شریف کی بیماری ایسی ہے کہ اگر اس کا بیرون ملک علاج نہ کرایا گیا تو اُن کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے حکومت اسی قسم کی رپورٹ کی طلبگار تھی اس لیے فوراً میاں نواز شریف کی لندن برآمدگی کا انتظام کیا گیا خصوصی جہاز فراہم کیا گیا اور سوٹ بوٹ پہن کر میاں نواز شریف عازم لندن ہوئے ، اور پاکستان میں پراجیکٹ عمران خان کے کردار کُھل کر اپنا ننگا ناچ کرنے لگے کہ اب انہیں حکومت میں چیلنج کرنے والا کوئی باقی نہ تھا تمام کردار ایک ہی پیج پر خوش تھے ملک میں جھوٹ کا بیانیہ اور عمران خان کی خوبصورتی کا چارہ بک رہا تھا ملک آہستہ آہستہ عالمی تنہائی کا شکار ہورہا تھا تمام اداروں میں ایسے ذہنی مفلوج افراد کو بھرتی کیا جارہا تھا جو ۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
نوٹ : ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضرور ی نہیں۔ادارہ