(24 نیوز)بنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج سول نافرمانی کی تحریک کی شکل اختیار کر گیا، طلبہ نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔جگہ جگہ جھڑپوں،فورسز کے حملوں میں مرنیوالوں کی تعداد 300 ہوگئی ۔
بنگلہ دیش میں گزشتہ روز سے شروع ہونے والے پرتشدد احتجاج مظاہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 191 افراد ہلاک ، درجنوں زخمی ہوچکے ہیں، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے طلبہ کو دہشت گرد قرار دے دیا۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طالبعلم نہیں دہشتگرد ہیں، جو ملک کو غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں، ہم وطنوں سے اپیل ہے کہ ان دہشتگردوں کو کچل دیں،حکومت نے شام 6 بجے کے بعد ملک بھر میں غیرمعینہ مدت کے لئے کرفیو نافذ کرنے اور عام تعطیل کا اعلان کر دیا ہے، حالات پر قابو پانے کے لئے انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی ہے۔
ضرور پڑھیں:برطانیہ : ہوٹل پر حملہ، شرپسندوں کی تارکینِ وطن کو زندہ جلانے کی کوشش
میڈیا رپورٹس کے مطابق سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے طلبہ نے وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے اور بڑے پیمانے پر حکومت مخالف احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف جولائی سے شروع ہونے والے احتجاج میں پرتشدد واقعات کے نتیجے میں اب تک 300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ طلبہ نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور مظاہرین شیخ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ملکی صورتحال پر بنگلادیشی وزیراعظم نے کہا ہےکہ جو لوگ احتجاج کے نام پر یہ سب تباہی کررہے ہیں وہ طالب علم نہیں جرائم پیشہ افراد ہیں، عوام کو ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔رپورٹس کے مطابق حکام نے کرفیو والے علاقوں میں انٹرنیٹ بھی بند کردیا ہے اور ایک ہفتے میں کم ازکم 11 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔