وہ ایک بزدل کمانڈو تھا؟
اظہر تھراج
Stay tuned with 24 News HD Android App
حسب معمول دفتر پہنچا تو خبروں میں گم ہوگیا ،میرے دائیں طرف لگے ٹی وی چینلز کی سکرین دیکھی تو ایک خبر نے چونکا دیا ،یہ خبر سابق صدر پرویز مشرف کے انتقال کی تھی ،وہ پرویز مشرف جو تقریباً آٹھ سال تک باوردی اور بغیر وردی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا ،وہ پرویز مشرف جو مکے لہرا لہرا کر کہتا تھا ’میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں‘ ۔انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بھی بلند کیا ،یہ نعرہ بھی ایسے ہی تھا جیسے ’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ کا دلکش نعرہ تھا ،یہی نعرہ بعد میں ’نیا پاکستان‘ بنا ۔
یہ خبر ایسے ہی تھی جب ایک جج نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی ، وہ خبر بھی مجھ سمیت ہر پاکستانی کےلیے یہ غیر متوقع اور چونکا دینے والی خبر تھی۔ یہ پہلی بار ہوا تھاکہ ایک سابق آرمی چیف کو سزا ہوئی وہ بھی سزائے موت۔ ایک ایسے کمانڈو کو سزائے موت جو تین جنگیں لڑنے اور چالیس سال تک اپنے وطن کی خدمت کا دعویٰ کرتا تھا۔ جو کہتا تھا کہ میں نے کارگل وار میں بھارتی سرزمین پر کھڑے ہوکر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی طرف سے سنایا گیا فیصلہ پی ٹی آئی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یہ ان کی سزائے موت معطل ہوگئی ،سابق صدر سزائے موت تو نہ پاسکے لیکن فیصلہ سنانے والے جج کورونا کے دنوں میں لقمہ اجل بن گئے۔
ضرور پڑھیں :سابق صدر پرویز مشرف دبئی میں انتقال کرگئے
مجھے اپنے سابق صدر سے پوری ہمدردی ہے۔ میں اپنے وطن کی فوج کو دنیا کی بہترین فوج سمجھتا ہوں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ میرے وطن کا ہر سپاہی محب وطن، ملک کےلیے جان نچھاور کرنے والا ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے وطن کےلیے جان ہتھیلی پر رکھنے والے کبھی غدارنہیں ہوسکتے۔ فوج کے بغیر ملک ٹوٹ جاتے ہیں، سرحدیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں۔ مجھے فوجی سرحدوں پر اور بیرکوں میں بہت اچھے لگتے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پرویز مشرف نے پاکستان کے دفاع کےلیے جنگیں لڑیں۔ لیکن جو ان پر الزامات لگے کیا ان میں کوئی حقیقت نہیں تھی؟ کیا تین نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے آئین معطل نہیں کیا تھا؟ یہ وہ آئین ہے جس سے وفاداری کا حلف پرویز مشرف نے اٹھایا تھا۔ کیا پرویز مشرف نے اس آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار نہیں دیا تھا جس کی بنیاد پر پورا ملک کھڑا ہے، جس آئین کی بنیاد میں قرآن کا نظریہ، سنت رسولؐ شامل ہے۔اس آئین کی دفعہ چھ کہتی ہے ’’کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا کسی اور غیرآئینی طریقے سے آئین منسوخ کرے یا اسے معطل کرے یا اسے منسوخ کرنے کی سازش کرے تو سنگین غداری کا مجرم ہوگا‘‘
یہ بھی پڑھیں :پرویز مشرف کون تھے؟
آج پرویز مشرف (ٖParvaiz Mushraf) کی موت پر جو درد ہے،جان کی امان پاؤں تو یہ اضطراب، یہ درد ہم نے بھی محسوس کیا، بلکہ اس سے کم نہیں تو زیادہ محسوس کیا ہوگا۔ جب 12 اکتوبر 1999 کی رات اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹینک دوڑے۔ پی ٹی وی، پارلیمنٹ کی دیواریں پھلانگیں گئیں، تو ہم سو نہیں سکے۔ جب کارگل کے برفیلے محاذ پر ہتھیار پھینکنے کی خبر ملی تو ہم بھی روئے تھے۔ جب ایک کال پر میرا ملک مقتل گاہ بنا، جب میرے ہمسائے میں اپنوں کے ڈیزی کٹر بموں سے سینے چھلنی ہوئے تو ہم بھی تڑپے تھے۔ جب پاکستان کے ہوائی اڈوں سے امریکی جہاز اڑتے تھے ہم بھی گڑگڑاہٹ سے کانپتے تھے۔ گوانتاناموبے کی جیل میں جب بھی عافیہ روتی ہے تو پورا پاکستان بھی روتا ہے۔ سانحہ 12 مئی، سانحہ لال مسجد، سانحہ باجوڑ، اکبر بگٹی کے قتل کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ زخم بہت ہیں، سزا کم ہے۔ انصاف تو پاکستان کے ساتھ نہیں ہوا، جس کو برباد کیا گیا۔ انصاف تو عوام کے ساتھ نہیں ہوا جس کو غیروں کی لگائی گئی آگ میں ستر ہزار سے زائد سپوت جھونکنے پڑے۔
اسےبھی دیکھیں :صدر،وزیر اعظم ،عسکری قیادت کا پرویز مشرف کے انتقال پر اظہار تعزیت
کسی کا کمانڈو،کسی کا سپہ سالار،کسی کا وہ استاد تھا،ان کیلئے ہی معتبر ہوگا ، جمہوریت پسند لوگ کسی طور پر ان کے سیاہ کو سفید نہیں کہہ سکتے،آج ملک کا جو حال ہے کسی اورکی وجہ سے نہیں اسی کی وجہ سے ہے،اسی کی حکمرانی کی وجہ سے ہے،ان کی حکمرانی اور فیصلوں سے کچھ لوگوں کی تو زندگیاں بدلیں ،کچھ لوگوں کی جائیدادوں میں اضافہ ہوا لیکن پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ،لوگوں کے نزدیک وہ ایک بہادر تھا ،میرے نزدیک وہ ایک بزدل کمانڈو تھا جو اپنے پر لگے الزامات کا سامنا نہ کرسکا ،سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے کو موت بھی آئی تو پرائے دیس میں آئی ،وہ دنیا سے تو کوچ کرگئے لیکن ڈمہ ڈولہ میں شہید ہونے والے 84 معصوم بچوں ،فاسفورس بموں سے لال مسجد میں جلائی جانیوالی جانوں کی روحیں پیچھا کرتی رہیں گی۔
نوٹ : ادارےکا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ادارہ