(اظہر تھراج)عام انتخابات کی گہما گہمی عروج پر پہنچ گئی،لاہور میں کون کس کے مدمقابل ہے ؟کس کی جیت کے امکان روشن ہیں؟ تفصیلات سامنے آگئیں ۔
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں بڑے بڑے سیاستدان میدان میں ہیں، لاہور میں بھی انتخابی دنگل عروج پر پہنچ چکا ہے ،بڑے نام اس دنگل میں زور آزمائی کررہے ہیں ۔ استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے صدر عبدالعلیم خان لاہور کے حلقے این اے 117 اور پی پی 149 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔عبدالعلیم خان مسلم لیگ ن کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار علی اعجاز بٹر، پیپلز پارٹی کے آصف ہاشمی اہم امیدوار ہیں۔
عبدالعلیم خان نے اپنی سیاست کا آغاز سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق سے کیا اور 2002 میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بنے۔2013 میں علیم خان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔پھر 2015 کے ضمنی الیکشن میں انہیں ن لیگی رہنما ایاز صادق کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
2018 میں بھی انہیں قومی نشست پر شکست ہوئی لیکن وہ صوبائی نشست سےکامیاب ہوگئے۔اہور کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 117 جسے لاہور کا گیٹ وے حلقہ کہا جاتا ہے، اس سے قبل یہ حلقے NA-121 جبکہ 2008 اور 2013 کے انتخابات میں NA-118 سے جانا جاتا تھا۔
این اے 127
چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کے لیے آبائی حلقہ لاڑکانہ تو لازم وملزوم ٹھہرا سو این اے 194 لاڑکانہ کے علاوہ اس بار ان کا حلقہ انتخاب این اے127 لاہور ، این اے 194 اور این اے 196 قمبرشہداد کوٹ شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری تین قومی اسمبلی کے حلقوں سے میدان میں اتر رہے ہیں جن میں این اے 194 لاڑکانہ، این اے 196 قمبر شہدادکوٹ، این اے 127 لاہور شامل ہیں۔لا ہور کے حلقہ این اے 127 سے ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے مقامی رہنما ظہیر عباس کھوکھر اور ن لیگ کے عطاء اللہ تارڑ سے ہے۔
این اے 130
4 سال کی جلاوطنی کے بعد اکتوبر 2023 میں لندن سے وطن واپس آنے والے نواز شریف اپنے خلاف مقدمات ختم ہونے کے بعد این اے 130 لاہور 14 سے میدان میں اتریں گے ،نواز شریف کے آبائی حلقہ این اے 130 لاہور سے کانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے، یہ نشست مسلم لیگ ن کی محفوظ نشست تصور کی جاتی ہے، میاں محمد نواز شریف کے مدمقابل تحریک انصاف کی حمایت سے ڈاکٹر یاسمین راشد، اقبال احمد خان پیپلز پارٹی سے، جماعت اسلامی سے خلیق احمد بٹ اور تحریک لبیک سے خرم ریاض میدان میں اتر رہے ہیں۔میاں محمد نواز شریف صوبائی وزیرخزانہ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
تحریک انصاف کا ووٹ بینک یہاں پر بڑی تعداد میں موجود ہے تاہم 2018 میں وہ یہاں سے کامیاب نہیں ہوسکی۔
یادر ہےکہ میاں محمد نواز شریف این اے 15 مانسہرہ سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کے مدمقابل مضبوط امیدواروں میں تجربہ کار سیاست دان پی ٹی آئی کے شہزادہ گستاسپ خان اور پیپلز پارٹی کے زرگل خان ہیں۔
این اے 119
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز دو حلقوں این اے 119 لاہور اور پی پی 159 سے میدان میں اتری ہیں۔لاہور کے حلقے این اے 119 کا شمار لاہور کے بڑے حلقوں میں ہوتا ہے، یہ حلقہ پچھلی دو دہائیوں سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ بنا ہوا ہے، ماضی میں یہ حلقہ این اے 127 کے نام سے جانا جاتا تھا۔
لاہور کے حلقہ این اے 119 میں سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا کیونکہ تین بار وزیر اعظم رہنے والی نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پہلی بار میدان میں اتری ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے اسیر رہنما عباد فاروق کے بھائی شہزاد فاروق کو مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا ہے۔ اس حلقے سے مریم نواز اور شہزاد فاروق کے علاوہ پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی ، مرکزی مسلم لیگ جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم کی امیدواروں سمیت مجموعی طور پر19امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔
این اے 122
لاہور کے حلقہ این اے 122 میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سردار لطیف کھوسہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس حلقے میں لاہور کے پوش علاقے بھی شامل ہیں جہاں ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کافی زیادہ ہے۔سن 2018 کے انتخابات میں عمران خان اس حلقے سے 84 ہزار 313 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جن کے مقابلے میں خواجہ سعد رفیق 83 ہزار 633 ووٹ لے کر صرف 680 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔
این اے 123
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 123 لاہور اور این اے 132 قصور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔این اے123 لاہور سے ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے افضال عظیم پاہٹ، تحریک لبیک کے امجد نعیم اور جماعت اسلامی سے لیاقت بلوچ ہیں۔
(مزید تفصیل اپڈیٹ کی جارہی ہے)