ملتان میں گیلانی قریشی روایتی سیاست میں نیا موڑ

ڈاکٹر امجد علی بخاری

Feb 05, 2024 | 19:12:PM

تاریخ جہاں تک دستیاب ہے ملتان کا ذکر ملتا ہے، بس نام بدلتے رہے لیکن شہر زندہ رہا۔ کئی حملہ آور آئے، آبادیوں کو تہس نہس کیا، فصلوں کو روندا اور کچھ نے شہر کو سنوارا۔ محمد بن قاسم دیبل کی بندرگاہ پر اتر کر ملتان تک پہنچا اس لیے یہاں اس کے نام سے منسوب قاسم بیلہ کی آبادی ہے، سکندراعظم دنیا فتح کرنے کی مہم پر ملتان پہنچا اور خونی برج کے مقام پر ایک خونی جھڑپ میں شدید زخمی ہوا جنگ ختم ہوئی واپس لے جاتے ہوئے دم توڑ گیا اور سکندریہ میں دفن ہوا، مغرب سے آنے والے افغان بھی حملہ آور ہوئے، افغانستان کے حکمران محمد شاہ ابدالی نے تو آنکھ بھی اسی شہر میں کھولی، جرنیلی سڑک بھی قریب سے گزری جو شیر شاہ سوری کا پتہ دیتی ہے۔ پھر انگریز آئے اور خطے کا منظر ہی بدل گیا، انگریزوں کی فرمانبرداری نے یہاں جاگیروں اور جاگیرداروں کو جنم دیا۔

 انگریز کی حمایت ترقی کے دروازے کھولتی گئی اور ایک زمانے میں انگریزی کی تابعداری میں مقابلے لگے رہے، انگریز کے جانے کے بعد پارلیمانی جمہوریت ہمارا نظام حکومت ٹھہرا اور کبھی کبھی کچھ توقف کہ پارلیمانی جمہوریت رائج رہی، اپنی سیاست اور اپنی حکمرانی رائج ہوئی تو دو خاندان سیاسی طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ایک خاندان گیلانی تھی جن کے آباواجداد گیلان سے اوچ آکر آباد ہوئے اور پھر ملتان آگئے اور دوسرا قریشی خاندان تھا جو سیاست میں آگے آگے رہا اور انگریز دور میں اپنا سیاسی کردار ادا کرتا رہا۔ آج بھی اس شہر کی سیاست پر ان دونوں خاندانوں کا غلبہ ہے، آج ان دونوں خاندانوں کی پارلیمانی سیاست میں نمائندگی کے لیے میدان میں سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی موجود ہیں۔

 گیلانی خاندان داعی ہے کہ انہوں نے ملتان میں تعلیم کے لیے بہت خدمات انجام دیں جبکہ قریشی خاندان آٹھ سو برسوں سے زائد سے موجود یہاں مدفون بزرگوں حضرت بہاالدین زکریا اور حضرت شاہ شمس کے درباروں کے گدی نشین ہیں، یہ دونوں بزرگ سندھ سے یہاں تشریف لائے اس لیے سندھ میں ان کے ماننے اور چاہنے والے آج بھی ننگے پیر اس سرزمین پر آتے ہیں اوران عرس میں شرکت کرتے ہیں، یہ مذہبی ورثہ قریشی خاندان کا سیاسی ورثہ بھی ہے۔

شاہ محمود قریشی سے قبل ان کے والد مخدوم سجاد قریشی ان درباروں کے سجادہ نشین تھے جو سیاسی سفر میں گورنر پنجاب کے عہدے تک پہنچے، شاہ محمود قریشی نے اپنا سیاسی سفر ضلع کونسل سے شروع کیا اور پھر رکن صوبائی اسمبلی، صوبائی وزیر، مئیر ملتان سے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی تک پہنچے اور گذشتہ دونوں حکومتوں میں وزیر خارجہ بنے، انہوں نے اپنے سیاسی سفر میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ  اور پاکستان تحریک انصاف تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی کشتی میں سفر کیا لیکن اب سائفر کیس میں 10 برس قید کی سزا پاکر انتخا بی نااہلی سے دوچار ہوئے ہیں اور اس وقت جیل میں ہیں، اس صورتحال نے ملتان کے سیاسی منظر نامے پر بہت اثرات مرتب کیے ہیں جس پر بات کرتے ہیں۔

ضرورپڑھیں :جنوبی پنجاب میں کانٹے کا جوڑ،کس کی کیا پوزیشن ہے؟

سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنا سیاسی سفر ضلع کونسل سے شروع کیا جو قومی اسمبلی تک پہنچا، وہ مختلف وزارتوں میں وزیر بنے پھر سپیکر قومی اسمبلی اور آخر سیاسی معراج وزارت عظمٰی کی کرسی تک جا پہنچے، آجکل سینیٹر ہیں اور سیاسی سفر جاری ہے گزشتہ دو دہائیوں میں پیپلز پارٹی کے انتہائی اہم رہنما بن کر ابھرے ہیں اور جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست انہی کے گرد گھومتی ہے۔

ان دونوں سیاسی خاندانوں کو دیکھتے ہوئے جاوید ہاشمی نے بھی سٹوڈنٹ سیاست سے اپنے سفر کا آغاز کیا پھر خود کو مخدوم بھی کہلوایا، مزار کی گدی نشینی بھی حاصل کی ڈٹ کر سیاسی جنگ لڑی اپنا لوہا منوایا لیکن سیاست کی بے رحمی کی نظر ہوگئے، حالیہ الیکشن میں انہوں نے قومی حلقہ 149 سے کاغذ جمع کرائے تھے لیکن حالات دیکھتے ہوئے کاغذ واپس لے لی ہیں اور خود کومحدود کرکے داماد کو تحریک انصاف کا امیدوار بنوادیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سابق وزیر اعظم موٹر سائیکل پر انتخابی مہم کیلئے نکل آئے

شاہ محمود قریشی ملتان کے دو قومی حلقوں سے الیکشن لڑتے رہے وہ پہلے این اے 151 سے اور پھر این 150 سے امیدوار رہے، جیتے بھی لیکن اب ان کی نااہلیت نے یہاں کے سیاست کو بدل دیا ہے این اے 150 سے اب ان کے صاحبزادے مخدوم زین قریشی اور 151 سے صاحبزادی مہر بانوقریشی امیدوار ہیں اور بڑے مخدوم صاحب جیل میں ہیں، ان کی سیاست کا انحصار ان دونوں حلقوں کے انتخابی نتائج پر ہے جہاں این اے 151 میں ان کی صاحبزادی کے مدمقابل یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی موسی گیلانی ہیں، یعنی یہاں گیلانی قریشی براہ راست مقابلہ ہے اور اسی حلقے میں مخدوم شاہ محمود قریشی کا گھر اور دربار ہے دونوں کی ان کی حمایت درکار ہے،سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے تین صاحبزادے ملتان سے الیکشن لڑرہے ہیں وہ خود حلقہ 148 سے امیدوار ہیں ایک صاحبزادے عبدالقادر گیلانی 152 سے امیدوار ہیں اور ایک صاحبزادے سید علی حیدر گیلانی پی پی 213 سے امیدوار ہیں اس طرح 4 سیٹوں پر ایک ہی گھر سے امیدوار ہیں جو دلچسپ ہے ۔

یہ ایسا موقع ہے کہ قریشی خاندان خاندان کا سربراہ پس زنداں ہے، ان کا خاندان اب اس معاملے کو اس طرح اٹھاتا ہے کیا مظلومیت کا کارڈ کھیلا جاتا ہے یا محرومی کا یا پھر ماضی کے نعروں کو پذیرائی ملتی ہے، جو سیاسی جماعت پولنگ ڈے پر اپنے ووٹرز کا گھر سے نکالنے میں کامیاب رہی وہی کامیابی حاصل کرے گی اور ووٹرز کا اوور آل ٹرن آوٹ الیکشن کی سمت طے کرے گا ۔

نوٹ :ڈاکٹر امجد علی بخاری ،  صحافی تجزیہ کار، کالم نگار، اینکر    4 کتابوں کے مصنف، ہزاروں مضامین مختلف قومی اخبارات میں شائع ہوئے، تحقیقی مقالے مختلف مقامی اور بین الاقوامی جرائد میں شامل ہوئے، مختلف قومی اداروں کے ایڈیٹر رہے، متعدد یونیورسٹیز میں سینکڑوں لیکچرز دیے، پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام میں صنفی تفاوت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

مزیدخبریں