ٹرمپ کے آنے سے تارکین وطن پریشان،ملک بدری سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟طریقہ کار جانیے

خرم کلیم

Feb 05, 2025 | 18:51:PM

ڈونلڈ ٹرمپ کے حکومت میں واپس آنے کے بعد امریکا میں مستقل سکونت یا شہریت کے حصول کیلئے سرگرداں تارکین وطن کیلئے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

تارکین وطن کے خلاف جاری مہم کے دوران صرف4دنوں میں10 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا،ملک بدری کا ماحول شدید ہے اور دن رات چھاپے مارے جا رہے ہیں، امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے لیے صورتحال اور بھی تشویش ناک ہو چکی ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ افراد جو قانونی طریقے سے اپنے مستقل سکونت کے کیسز کا انتظار کر رہے ہیں، وہ بھی اب گرفتاری کے خطرے میں ہیں کہ کہیں انہیں بھی گرفتار کر کے اپنے وطن واپس نہ بھیج دیا جائے، اس کے نتیجے میں ریسٹورنٹس اور دیگر چھوٹے کاروباروں میں کام کرنے والے افراد خوف کے مارے کام پر جانے کی بجائے گھروں میں رہنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں، انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں انہیں بھی گرفتار کر کے واپس نہ بھیج دیا جائے۔

سستی لیبر کی کمی اور بے بی سٹرز کی کمی نے بھی ان مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے،ایسے افراد جوامریکا میں رہائش کے لیے کیسز لڑ رہے ہیں ان میں بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چھوڑدیا ہے تاکہ ایک دفعہ یہ غیریقینی کے بادل چھٹ جائیں تو وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں، کیسز کا سامنا کرنے و الے افراد جب اپنے گھروں سے مجبوری کے تحت باہر نکلتے ہیں توضروری دستاویزات کی کاپیاں اپنے جیب میں ضرور رکھتے ہیں۔  

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل ابھی فوری نکلتا نظر نہیں آرہا، اس معاملے پر مزید بھی بات کریں گے لیکن اس سے پہلے میں آپ کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو اس سارے معاملے کو سمجھنے میں آپ کی مدد کرے گا۔ 
یہ بات 2011 کے آخری دنوں کی ہے جب میں شام کو اپنے میڈیا آفس میں اپنے ڈیسک پر بیٹھا تھا اور  سکرپٹ پر کام کر رہا تھا، اچانک بہت قریب سے فائر کی آواز آئی، اور پھر یکے بعد دیگرے 3 گولیاں چلائیں گئیں،یہ سب کچھ بمشکل10سکینڈ میں ہوا اور پھر ایک بھگدڑ مچ گئی، کمزور دل لوگ ادھر ادھر چھپنے کی کوشش کرنے لگے، کچھ لوگ سکتہ میں آکر خاموش بیٹھے رہے جبکہ کچھ نوجوان اصل صورتحال جاننے کے لیے باہر دوڑ گئے، میں یہ بتا دوں کہ ہمارا میڈیا آفس کراچی کے ایک مصروف چوراہے کے قریب تھا جہاں کچھ سال پہلے ایک سیاسی جماعت کے مسلح کارکنوں نے حملہ کیا تھا،اس لیے اس فائرنگ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا کہ کہیں یہ پھر سے کسی سیاسی جماعت یا عسکری گروہ کا کام تو نہیں۔
ابھی ہم اس کشمکش میں تھے کہ باہر سے واپس آنے والے نوجوان ہمارے ساتھ اپنے ایک ساتھی میڈیا ورکر کو لے کر آئے، وہ ہماری رپورٹنگ ٹیم کے سربراہ تھے اور انہوں نے بتایا کہ جب وہ اپنی گاڑی پارک کر رہے تھے تو اچانک کچھ مسلح نقاب پوش ان کے پاس آئے اور انہیں دبوچنے کی کوشش کی،وہ خوش قسمت تھے کہ وہ بھاگ کر آفس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، ورنہ گولیوں کا شکار ہو چکے ہوتے،اس وقت پولیس بھی باہر آ گئی تھی اور ہم نے جا کر دیکھا کہ ایک گولی گاڑی میں سوراخ کرتی ہوئی نکلی جبکہ کچھ گولیاں مین گیٹ کے قریب دیوار پر واضح نشانات چھوڑ گئی تھیں۔
پولیس نے اسے ڈکیتی کی کوشش قرار دے دیا ، چند دنوں تک ہم پر اس فائرنگ کے خوف کا اثر رہا لیکن پھر ہم نے یہ بات بھولنا شروع کر دی، پھر کچھ مہینوں بعد یہ واقعہ یاد آیا، جب ہم نے سنا کہ اس فائرنگ کے بچ جانے والے ہمارے ساتھی نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر امریکی مستقل ویزا حاصل کر لیا ہے اور وہ امریکا جا رہے ہیں،آج کل وہ امریکا کے ایک فلاحی اسلامی ادارے میں اہم عہدے پر کام کررہے ہیں۔ 

 پاکستان سے لوگ عموماً امریکا، کینیڈا، برطانیہ، یورپی یونین کے ممالک، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں شہریت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں،ان کی ترجیح اکثر گرین کارڈ یا پی آر کارڈ ہوتا ہے لیکن یہ حصول کوئی آسان کام نہیں، جس طرح میں نے یہ واقعہ بیان کیا اس طرح کی مختلف صورتوں کا سامنا کرنے والے افراد امریکا اور بہت سے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرتے ہیں کہ وہ انہیں سیاسی پناہ دے دیں،پاکستان یا دوسرے ترقی پذیر ملکوں سے تارکین وطن کس طرح امریکا پہنچتے ہیں اس کے لیے مختلف آپشنز کو سمجھنا ضروری ہے۔ 

1.    پہلا طریقہ سیاسی پناہ یا اسائلم کا ہوتا ہے:

جس کے تحت اگر کوئی شخص یہ ثابت کرے کہ اس کی زندگی کو پاکستان میں خطرہ ہے اور وہ سیاسی کارکن یا انسانی حقوق کا علمبردار ہے، تو وہ سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے سکتا ہے، اس عمل کے دوران یہ فرد حکومتی اداروں سے قانونی تحفظ حاصل کرتا ہے اور اگر اس کی درخواست منظور ہو جائے، تو وہ قانونی طور پر اس ملک میں رہنے کے حقوق حاصل کرتا ہے۔

2.    اگر کوئی شخص وزٹ ویزے پر امریکا جائے اور وہاں کسی کمپنی سے نوکری کی آفر حاصل کرے تو اس کاویزا وزٹ سے جاب ویزا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

 اس کے بعد اس شخص کو طویل عرصے تک اس ملک میں کام کرنے اور ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد حکومت اگر اسے مفید سمجھے تو وہ پی آر یا گرین کارڈ جاری کرتی ہے،اس کے بعد وہ مستقل شہریت کے حصول کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔

3.    ایک اور طریقہ یہ ہے کہ کسی شخص نے پاکستان میں رہتے ہوئے شہریت کے لیے درخواست دی ہو؛

 اور اسے ثابت کرنا ہو کہ وہ اپنے شعبے میں ماہر ہے اور اس ملک کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے، اس میں مخصوص شعبوں کی معلومات اور تعلیم کا ہونا ضروری ہے، جیسے برطانیہ میں ہیلتھ ورکرز کی کمی یا امریکا میں آئی ٹی ماہرین کی کمی۔

4. سٹوڈنٹ ویزا بھی ایک اہم طریقہ ہے۔

 مختلف ممالک اچھے طالب علموں کو اپنے ہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں، اس کے بعد طالب علم اپنے ویزے کو جاب ویزا میں تبدیل کر سکتا ہے اور اگر اس کا ٹریک ریکارڈ اچھا ہو، تو وہ پی آر حاصل کرنے کے اہل ہو سکتا ہے۔

5.    کچھ لوگ شادی کے ذریعے بھی شہریت حاصل کرتے ہیں؛ 

 تاہم ایسی شادیاں اکثر جعلی نکلتی ہیں اور بعض اوقات ناکام ہو جاتی ہیں  جس کی وجہ سے ان کے شہریت کے کیسز متاثر ہو جاتے ہیں،ایسے افراد کو قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اگر شادی کا مقصد صرف شہریت حاصل کرنا ہو تو وہ کیسز زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہو پاتے۔

6.والدین امریکا میں رہائش پذیر  یا وزٹ پر آئے تھے؛

 ایک اور کیٹیگری ان لوگوں کی ہے جن کے والدین امریکا میں رہائش پذیر تھے یا وزٹ پر آئے تھے۔ ان کےامریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت مل جاتی ہے، اور وہ بعد میں اپنے والدین کو بھی شہریت حاصل کروا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ والدین نے کسی قانونی راستے سے امریکا میں قیام کیا ہو اور وہ شہریت یا مستقل رہائش کے حامل ہوں۔
7.    بعض افراد انسانی سمگلنگ کے ذریعے امریکا پہنچتے ہیں۔

 ان کے پاس دستاویزات نہیں ہوتے اور انہیں نئے سرے سے زندگی شروع کرنی پڑتی ہے جس میں قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے افراد اکثر غیر قانونی طریقوں سے امریکا پہنچتے ہیں، اور ان کے لیے قانون کے مطابق راستہ اختیار کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

کارروائیاں پہلے بھی تارکین وطن کے خلاف ہورہی تھیں مگر اب ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد ان میں شدت آگئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے طریقہ کارمیں بنیادی فرق کیا ہے۔ 
جن کیٹیگریز کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان میں سے صرف انسانی سمگلنگ کا معاملہ ایسا تھا جسے مکمل طور پر غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے جبکہ باقی تمام 6کیٹیگریز سے تعلق رکھنے والے افراد جب مستقل سکونت یا شہریت کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو وہ اس وقت تک کے لیے لیگل ہوجاتے ہیں جب تک کہ ان کے کیس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا،اس دوران وہ اکثر صورتوں میں امریکا میں رہتے ہوئے نوکری بھی کرسکتے ہیں اور دیگر سہولیات سے استفادہ بھی۔ 
ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد یہ ہوا کہ اب وہ لوگ جو مستقل سکونت یا شہریت کے کیس لڑرہے ہیں ان کے خلاف بھی گھیرا سخت کردیا گیا ہے اور بعض صورتوں میں ان کوزیرحراست لینے کے ساتھ ساتھ مختلف قانونی کارروائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔
 غیرملکی تارکین وطن سے نمٹنے کیلئے بنائی گئی خصوصی آئس فورس اب گھروں، تعلیمی اداروں اور گرجا گھروں  پربھی  چھاپے مار کرغیرقانونی طور پر مقیم افراد کو گرفتار کررہی ہے جبکہ اس سے پہلے اس مقصد کے لیے گھروں، تعلیمی اداروں اور گرجا گھروں پر چھاپے مارنے کی اجازت نہیں تھی، گرجا گھر غیرقانونی تارکین وطن کا سب سے بڑا مسکن رہے ہیں لیکن اب بھی آئس فورس کی کارروائیوں کے نشانے پر ہیں،پہلے یہ فورس تارکین وطن کے خلاف کارروائیوں کی تشہیر سے گریز کرتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے اور اب تارکین وطن کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائیوں سے متعلق خبروں کی خصوصی تشہیر کی جاتی ہے۔ 
پاکستانی حکومت کے پاس آپشنز?
 اب سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان افراد کو کیسے واپس لے گی,کچھ آپشنز ہیں جن میں ان کو قانونی مدد فراہم کرنا بھی شامل ہے,ان افراد کی مدد کرنا اور ان کے قانونی مسائل کا حل نکالنا حکومت کی ذمہ داری بن چکی ہے۔

ان تارکین وطن میں پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے, اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس ان امریکی بدری کے شکار تارکین وطن کے لیے کیا آپشنز موجود ہیں؟
ایک آپشن یہ ہے کہ پاکستان انہیں قبول کرے اور واپس لاکر ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ کولمبیا کی طرح ان افراد کو واپس بھیج دیا جائے، یعنی پاکستان یہ کہہ دے کہ ہم انہیں واپس نہیں لیتے, اگر پاکستان ایسا کرتا ہے تو یہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا سبب بنے گا کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے مابین کاروباری مواقع میں کمی واقع ہو سکتی ہے, پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جو بہتری آئی ہے، وہ اچانک متاثر ہو جائے گی,جینٹری صاحب، جو اپنے وفد کے ساتھ پاکستانی حکام کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں، ان کی کوششوں کو ایک دم روکنا پڑے گا  اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں واضح دراڑ آ جائے گی۔
ایک اور آپشن وہ ہے جو اکثر ممالک استعمال کرتے ہیں، یعنی وہ اپنے تارکین وطن کو شہریت کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں, اگر کسی تارکین وطن کو اس نوعیت کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہ فوری طور پر اپنے سفارتخانے سے رابطہ کرتا ہے، جو قانونی امداد فراہم کرتا ہے,پاکستان نے بھی یہی آپشن اختیار کیا ہے اور وہ شہریت کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنے والے اپنے تارکین وطن کو قانونی امداد فراہم کرے گا، اور دفتر خارجہ نے اس بات کی باضابطہ تصدیق بھی کی ہےتاہم اس آپشن کو اختیار کرنے سے کچھ نئے مسائل سامنے آ سکتے ہیں, اگر اس وقت10 ہزار پاکستانیوں کو قانونی مدد کی ضرورت ہے تو پاکستانی سفارتخانے کی مالی اور افرادی صلاحیت اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی نہیں, دوسری بات یہ ہے کہ امریکا میں داخل ہونے کے بعد کئی پاکستانیوں نے یہ کھل کر کہا ہے کہ وہ سیاسی پناہ کے خواہشمند ہیں کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اتنے بڑے سیاسی کارکن ہیں کہ حکومت انہیں برداشت نہیں کرتی,ایسے افراد نہ تو سفارتخانے سے رابطہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ سفارتخانہ ان کو قانونی مدد فراہم کرے۔
اسی طرح، کچھ صحافی بھی اس طرح کے کیسز بنا کر شہریت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان میں ان کے ساتھ ظلم و ستم ہو رہا تھا اور حکومت نے انہیں آزادانہ اظہار رائے کا موقع نہیں دیا,اس طرح کے لوگ بھی سفارتخانے سے قانونی مدد حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔
کچھ لوگ اپنے آپ کو اقلیتی برادری کا حصہ قرار دے کر پاکستان کو اپنے لیے غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور انہوں نے حکومت و اداروں کو قصوروار ٹھہرایا ہے,ایسے افراد بھی سفارتخانے کا رخ کرنے میں ہچکچائیں گے۔
اب ان لوگوں کے لیے یہی آخری راستہ بچا ہے کہ وہ دعا کریں کہ ان کے کیسز 4سال تک زیر التوا رہیں اور اس دوران ٹرمپ حکومت کا خاتمہ ہو جائے,پھر مزید دعا کریں کہ نئی حکومت آ کر ٹرمپ انتظامیہ کے سخت قوانین کو ختم کرے اور انہیں فوری شہریت دے دے لیکن جو حالات ہیں، ان میں کسی معجزے کی ضرورت ہے تاکہ ان افراد کو بچایا جا سکے۔

مزیدخبریں