سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس، پہلی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
( امانت گشکوری ) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس کی پہلی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے جس میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے سویلینز کی فوجی عدالتوں میں مقدمات کے خلاف درخواست پر 22 جون کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا، 9رکنی بینچ کے آرڈر پر 7ججز کے دستخط ہیں، تحریری حکمنامے کے ساتھ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹایا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ چیف جسٹس کو 17 مئی کو 5صفحات پر مشتمل جواب ارسال کیا جس میں نشاندہی کی کہ چیف جسٹس اور دو سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی بینچ کی تشکیل کرے گی، اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا کیوں کہ عدالت عظمی نے اس قانون کو بننے سے پہلے ہی معطل کر دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا کہ معزز چیف جسٹس نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا ہے، اس مخمصے سے اس وقت نکلا جا سکتا ہے جب اس قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ کریں یا حکم امتناع واپس لیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید لکھا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے معاملات اپنی مرضی یا چنیدہ اہلکاروں کے ذریعے چلائے۔ چیف جسٹس نے ججز کی فل کورٹ کمیٹی تو نہ بلائی لیکن درخواست گزاروں اور ان کے وکلاء کو ترجیع دی۔ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے ہیں، پوری قوم کی طرح میں بھی منتظر ہوں کہ اس کیس کا جلد فیصلہ ہو۔
تحریری حکمنامے کے ساتھ جسٹس سردار طارق مسعود کا اختلافی نوٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ چیف جسٹس سویلینز کے فوجی عدالتوں میں کیسز کے خلاف درخواست پر فُل کورٹ تشکیل دیں۔
مزید پڑھیں: لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں موسلادھار بارش، نشیبی علاقے زیر آب آگئے
جسٹس سردار طارق مسعود نے درخواست گزار کے وکیل کی چیف جسٹس سے ملاقات پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل کی چیف جسٹس سے ملاقات کے اگلے روز مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے مزیدلکھا کہ کیا سالوں سے زیر التواء مقدمات میں وکیلوں کو چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت ہو گی، پانامہ کیس اس وجہ سے سنا تھا کہ 5 رکنی بینچ اسے قابل سماعت قرار دے چکا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ کچھ عرصے سے بینچ کی تشکیل میں ایک مخصوص پیٹرن نظر آ رہا ہے، چند معزز ججز کے خصوصی بینچ بنائے گئے، فل کورٹ تشکیل نہ دینے سے اس عدالت کی اتھارٹی اور فیصلوں کی قانونی حیثیت متاثر ہو رہی ہے۔حالیہ معاملے کی آئینی حیثیت اعلی ترین عدالتی جانچ کا تقاضا کرتی ہے۔