(ملک اشرف) لاہور ہائیکورٹ میں سی آئی اے کے قیام کی قانونی حیثیت کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران عدالت نے سی آئی اے کے قیام کی قانونی حیثیت بارے سوال اٹھایا۔
اس موقع پر ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل عدالتی کی معاونت کیلئے پیش ہوئے۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے فرح نامی خاتون کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ڈی آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کس قانون کے تحت سی آئی اے کا قیام عمل میں آیا، سی آئی اے کس قانون کے تحت کسی ملزم کو حراست میں رکھ کر تفتیش کرسکتی ہے، روزنامچہ تھانے میں ہوتا ہے تو سی آئی اے کیسے کارروائی آگے بڑھاتی ہے۔
اس پر ڈی آئی جی کامران عادل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے بھی سی آئی اے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا، عدالت کو سپریم کورٹ کے فیصلے اور پولیس آرڈر دونوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سی آئی اے کی قانونی حیثیت بارے فیصلہ کرنا چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیے: ہم کوئی غلط مثال قائم نہیں کرنا چاہتے جو ادارے کیلئے ٹھیک نہ ہو:چیف جسٹس عامر فاروق
فاضل جج نے اس حوالے سے ریمارکس دیے کہ سی آئی اے کے قانونی حیثیت کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے، ڈی آئی جی کامران عادل نے جواب دیا اس کیلئے ترمیمی آرڈیننس کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت نگران حکومت ہے۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس دیے ’اس وقت کون سا کام ہے جو نگران حکومت نہیں کررہی، ڈی آئی جی نے تفصیلی جواب کیلئے مہلت کی استدعا کی، عدالت نے چھ ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت اگست کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ درخواست گزار خاتون نے اپنے شوہر کی سی آئی اے میں حراست کو چیلنج کیا تھا، پولیس کے جواب میں کہا گیا کہ خاتون کے شوہر کیخلاف مقدمہ درج ہے، ایف آئی آر کے اندراج اور ملزم کی گرفتاری کے بعد اسے سی آئی اے کے حوالے کیا گیا۔