عمران خان کا نام میڈیا میں آنے پر پابندی کا بہت شور و غوغا ہے کوئی اسے آزادی صحافت پر قدغن سمجھتا ہے اور کوئی اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ،یہ کیا ہے اس پر بات بعد میں کریں گے ۔
بچپن میں ہم سے بہت سے اُس ماحول میں پلے بڑے ہوئے ہوں گے جب گھر کے بزرگ بچوں کی اخلاقی تربیت کرتے ہوئے چند ایک ایسی باتوں سے ہمیں ڈراتے تھے کہ جن کا اصل میں ممانت اُسطرح سے نہیں تھی جس طرح سے ڈرایا جاتا تھا تاکہ ہم اُس مخلوق کے قریب تو دور نام بھی نا لیں ، ان سطور کو پڑھتے پڑھتے ہی کئی افراد نے نام کی اس پہیلی کو بوجھ چکے ہوں گے ، جی ہاں یہ جانور تھا سور جسے انگریزی میں "پگ" اور عربی میں خنزیر کہا جاتا ہے ، قرآن پاک میں اس جانور کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے لیکن دنیا کی کئی اقوام میں اسے رغبت سے کھایا اور پالا جاتا ہے لیکن مسلمانوں میں بچپن سے ہی اس جانور کے متعلق ایسی نفرت بھر دی جاتی ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی سور کو گالی اور اس کے گوشت کو حرام تو کیا اس کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔
اس حوالےسے مرزا اسد اللہ خان غالب کا ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بارانگریز مجسٹریٹ کی عدالت میں اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کا مذہب کیا ہے تو مرزا نے کہا " آدھا مسلمان مجسٹریٹ حیران ہوا اور پوچھا آدھا کیسے تو مرزا گویا ہوئے شراب پی لیتا ہوں سور نہیں کھاتا " چچا غالب کی طرح ہر مسلمان کچھ نہ کچھ گناہ گار ضرور ہوتا ہے لیکن سور کے متعلق اس کی ایک ہی رائے ، ایک صحافی نے بتایا کہ ایک جہازی سفر میں پاکستانی مسافر شراب پر شراب پئیے جا رہا تھا لیکن جب اس سے کھانے بارے پوچھا تو فوراً جواب دیا "آئی ایم مسلم حلال فوڈ اونلی " یہ تو بات سے بات نکلتی چلی گئی تو دور تلک چلی جائے گی۔ اس بات کا خیال تو ایسے ہی برسبیل تذکرہ آگیا کہ آج کل کچھ صحافیوں کو آزادی صحافت خطرے میں نظر آرہی ہے ۔
معاف کیجئے گا مجھے تو آج صرف ایک بیلنس سا بلاگ لکھنے کا حکم ہوا تھا جو میں ایسے لکھنا چاہتا تھا کہ وہ میری زبان ، میرے ذہن اور میرے خیالات کا عکاس نہ ہو بلکہ یہ سب تحریک انصاف کے کارکن کی زبان میں لکھا ہو ۔
اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے میں نے اپنے آفس کے ہی دو تین جید قسم کے تحریک انصاف کے فینز سے رابطہ کیا کہ وہ مجھے دور عمرانی کے چند ایسے کارنامے بتائیں جنہیں میں نواز شریف کے دور سے موازنہ کروں اور پھر اس موازنے کی بنیاد پر ایک ایسا بیلنس بلاگ لکھوں جس سے حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کو سمجھ آسکے کہ عمران خان پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہے ؟ دوتین روز کی گفتگو کے نتیجے میں جو شہرہ آفاق کارنامے بیان کیے گئے اُن میں سے چند یہ ہیں عمران خان نے ہمیں شعور دیا ، ہیلتھ کارڈز دئیے ، 3۔ غریبوں کے لیے پناہ گاہیں بنائیں ، غریب آدمی کو کٹا مرغی پال پروگرام دیا ، ، آئی ایم ایف کے پروگرام سے انحراف کرتے ہوئے 10 روپے پیٹرول سستا کیا ، تمام دشمن چورسیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مجبور کیا ، اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر 75 سالہ تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ۔
آپ بھی ان نقاط کو غور سے پڑھیں کیا ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے لیڈر نے اپنے تقریباً ساڑھے تین سالہ دور میں یہ کام کئےہیں،یہ صورتحال اس پراپیگنڈا کے باعث ہے جو ایک کلٹ نے منظم انداز میں پھیلائی اور اس بے خبری کو شعور کا نام دیا اب آپ کا اندازہ ہوگا کہ ہمارے پڑھے لکھے افراد بھی کیسی کیسی گمراہی کا شکار ہیں؟ جنرل( ر) فیض حمید کے پراپیگنڈا سیل نے کیسے اذہان سازی کی کہ وہ کام جو کسی این جی کے کرنے کے تھے اور این جی اوز کر بھی رہی ہیں وہ حکومت عمران کے کارنامے ہیں۔ شعور کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ لاہور میں جناح ہاوس کو جلا دیا اور اندر سے زیور کپڑے ، مور یہاں تک کے سالن تک چرا کر کھالیا ، غریبوں کے لیے پناہ گاہیں بنائی گئیں مجھے پورے پاکستان کا تو علم نہیں ہاں البتہ پنجاب میں 84 پناہ گاہیں کام کر رہی ہیں، مسافروں کی سہولت کے لیے بنائی گئی ان مردانہ و زنانہ پناگاہوں کو زیادہ تر نشے کے عادی افراد نے استعمال کیا اور بات رہی تمام چور سیاستدانوں کے ایک ہونے کی تو عمران خان جس سیاستدان پرویز الہیٰ کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اس کو اپنی پارٹی کا صدر بنا لیا، کبھی ایم کیو ایم دہشت گرد جماعت کا لقب پاتی تھی اور پھر وہی جماعت نفیس لوگوں کی جماعت قرار پائی جس جماعت اسلامی کی شہہ پر اس کے طلبا ونگ نے پنجاب یونیورسٹی میں خان پر تشدد کیا وہی خیبر پختونخوامیں شریک حکومت رہی اور اب بھی کراچی میں اسی جماعت اسلامی کو حمایت کا یقین دلایا ہے ۔
ضرور پڑھیں :کس دل سے کہیں تم کو عمران خدا حافظ
اب آئیں اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے پر تو جناب عمران خان صاحب آپ نے آنکھوں میں آنکھیں نہیں قومی سلامتی کے گریبان پر ہاتھ ڈالا ہے آپ اسی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے حکومت میں آئے اور حکومت چلائی اپنے مخالفین کو دبایا اور من چاہا فیصلہ عدل میں پایا اور اب جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئینی طور پر حکومت کو گھر بھیجا گیا تو پنجابی کی کہاوت " ڈگا کھوتی توں تے غصہ کمہار تے" یعنی گدھی سے گرکر کمہار کو قصور وار قراردینے کے مصداق آج وہ پاکستان کی خود مختاری ، سالمیت اور ساکھ کے درپئے ہوگئے ہیں ، کبھی اس ملک کو وہ سوڈان بنا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور کبھی سری لنکا اس ملک کے ڈیفالٹ کی پیش گوئیاں بھی صرف اس لیے کہ معاشی بارودی سرنگوں کو کچھ ایسے انداز میں بچھایا گیا تھا کہ ایک کے بعد ایک مہنگائی دھماکہ ہو، آئی ایم ایف والا نکتہ کہیں رہ نہ جائے تو عمران خان صاحب 2018 کے انتخابات سے قبل کہا کرتے تھے کہ ’مر جائیں گے کبھی آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں جائیں گے‘ لیکن وہ نا صرف اس پروگرام میں گئے بلکہ جاتے جاتے ایسا دھوکہ کر گئے کہ اب یہ ادارہ کسی حکومت پر اعتماد کرنے کو ہی تیار نہیں ۔
میں اپنے ان تمام دوستوں سے جو آج بھی عمران خان اور اُن کی جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں مجھے ضرور ان کے کارناموں سے آگاہ کریں میں اسی سپیس میں پوری ایمانداری سے شامل کروں گا لیکن شرط ایک ہی ہے کہ عمران خان کے دور اقتدار کا موازنہ نواز شریف کے طرز حکومت سے ہوگا۔
نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ادارہ