توہین عدالت کیس:مصطفیٰ کمال کی معافی مسترد ، کچھ لوگ عدلیہ کو گالی دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں؟  چیف جسٹس

عوام نے ججز کو انصاف کرنے اور ممبر پارلیمان کو قانون بنانے کے لیے بٹھایا ہے،جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس

Jun 05, 2024 | 12:30:PM

Read more!

(24 نیوز)سپریم کورٹ میں سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی ۔

 چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے  توہین عدالت کیس کی سماعت کی،سپریم کورٹ کی طلبی پر فیصل واڈا اور مصطفی کمال عدالت میں پیش ہوئے۔

مصطفیٰ کمال نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی، ان کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ ہم نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے جس میں غیر مشروط معافی مانگی ہے,چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ آپ اپنا غیر مشروط معافی والا جواب عدالت میں پڑھ کر سنا دیں، جس پر وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں مصطفیٰ کمال کا جواب پڑھ کر سنایا۔

ضرورپڑھیں:توہین آمیز پریس کانفرنسز چلانے پر ٹی وی چینلز کو  شوزکاز نوٹس،2 ہفتوں میں جواب طلب

وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی ہے، انہوں  نے پریس کانفرنس زیر التوا اپیلوں سے متعلق کی تھی،وہ خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فیصل واڈا کے وکیل کہاں ہیں؟ فیصل واڈا کے وکیل معیز احمد روسٹرم پر آگئے ,چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ہمارا گزشتہ سماعت کا حکم نامہ کیا تھا دکھائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا صاحب آپ تو سینیٹ یعنی ایوان بالا کے ممبر ہیں، سینیٹ ممبران کو تو زیادہ تہذیب یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ چلیں پہلے مصطفیٰ کمال کا معاملہ دیکھ لیں پھر آپ کو بھی سنتے ہیں، کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واڈا سے متاثر ہو کر پریس کانفرنس کی؟ جس پر وکیل مصطفیٰ کمال فروغ نسیم نے کہا کہ نہیں ایسی بات نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں عدلیہ کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک آئینی ادارہ ہے، قوم کو ایک قابلِ احترام عدلیہ اور فعال پارلیمنٹ چاہیئے، ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کرے تو کوئی فائدہ نہیں۔

 آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی،چیف جسٹس 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 19 پڑھیں کہ کیا کہتا ہے؟ آرٹیکل 19 میں decency کا لفظ استعمال ہوا ہے، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کو گالی نکال کر اور ڈرا دھمکا کر مرضی کے فیصلے لے لیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہوتا بھی ہو گا مگر میرے خیال میں میرے سامنے موجود دو شخص اس میں شامل نہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کچھ لوگ عدلیہ کو گالی دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں؟ ہم لوگوں کی قدر کرتے ہیں انہیں بھی قدر عدلیہ کی قدر کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ لوگوں نے ہمیں اس لیے یہاں بٹھایا ہے کہ ہم آپس میں لڑیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی جج بے ایمانی کر رہا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس لے کر آئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام نے ججز کو انصاف کرنے اور ممبر پارلیمان کو قانون بنانے کے لیے بٹھایا ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی دوہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی، ججز کے کنڈکٹ پر بات کرنا توہین عدالت میں آتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے، پارلیمنٹ میں بھی ججز کے کنڈکٹ کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔

فیصل واڈا اور مصطفی کمال کو ایک اور موقع مل گیا

اٹارنی جنرل عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت کو بھی اس طرح ایوان کی کارروائی کا اختیار نہیں، دونوں ملزمان کو یاددلانا چاہتاہوں کہ ارکان پارلیمنٹ ہیں، رکن پارلیمنٹ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا جو پارلیمنٹ کا ہی بنایاگیا قانون ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے دوہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کا کیس ہے۔

فیصل واڈا اور مصطفی کمال کو جواب جمع کرانے کا ایک اور موقع دے دیا گیا،سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال ایک ہفتے میں شوکاز نوٹسز پر دوبارہ جواب جمع کرا سکتے ہیں،کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ 17 مئی کو سپریم کورٹ میں سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق وزیر فیصل واڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا تھا.

مزیدخبریں