پاک بھارت تعلقات،برف پگھل گئی؟
تحریر:اظہر تھراج
Stay tuned with 24 News HD Android App
12 سال بعد پاکستان کے وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر ہیں ،یہ دورہ اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ فروری 2019 میں بھارتی دراندازی کے بعد پہلی بار کوئی پاکستانی عہدیدار بھارت گیا ہے،اس سے قبل اور بعد میں کوئی بھی بھارتی عہدیدار پاکستان نہیں آیا ،حتیٰ کے دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیمیں بھی نیوٹرل وینیو پر کھیلتی نظر آتی ہیں ۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری (bilawal bhutto) شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔
جنوبی ایشیا کی تاریخ میں پاک بھارت تعلقات تعاون اور تنازعات کے پیچیدہ امتزاج کے حامل ہیں۔ دونوں ممالک 1947 میں بھارتی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بنے تھے، جس نے مسلم اکثریتی ریاست پاکستان اور ہندو اکثریتی ریاست ہندوستان کو تشکیل دیا تھا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اور متعدد سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں، اور ان کے تعلقات میں گہرے عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری (bilawal bhutto zardari)کا دورہ اہم ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں آیا جب دونوں ممالک اپنے تعطل کا شکار امن عمل کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2015 میں دونوں ممالک نے جامع دو طرفہ ڈائیلاگ (CBD) کے نام سے بات چیت کا عمل شروع کیا تھا لیکن اسے 2016 میں’ اڑی‘ میں ہندوستانی فوجی اڈے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سےبات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں لیکن پیش رفت سست رہی -
ضرور پڑھیں :بھارتی وزیر خارجہ جے شاہ کی بلاول بھٹو سےمصافحہ کی ویڈیو سامنے آ گئی
بلاول بھٹو کا دورہ بھارت کے ساتھ ان کے خاندان کی تاریخ کی وجہ سے بھی اہم ہے۔ ان کے دادا ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں بھارت کے ساتھ تاریخی شملہ معاہدہ کیا تھا جس نے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی بنیاد رکھی تھی۔ تاہم اس معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا تھا، اور کشمیر کا تنازعہ آج بھی دونوں ممالک کے رمیان تمام مسائل کی جڑ بنا ہوا ہے،بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے کو تیار نہیں ۔پاکستان اپنے تئیں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ (Foreign minister pakistan)بلاول بھٹو کے دورہ بھارت کو شملہ معاہدے کی روح کو زندہ کرنے اور تعطل کا شکار امن عمل کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے بات چیت اور سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔
تاہم بلاول بھٹو کے دورے سے مثبت اشارے ملنے کے باوجود دونوں ممالک کو اپنے تعلقات میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ ’دہشت گردی‘ کا ہے۔ ہندوستان نے پاکستان پر دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا الزام لگایا ہے جو ہندوستان میں کام کرتے ہیں،بھارت کا خیال ہے کہ کالعدم تنظمیں جیش محمد (JM) اور لشکر طیبہ (LT) پاکستان میں کام کررہی ہیں،حقیقت میں ان کا نام و نشان نہیں ہے۔ ادھر ہندوستان بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دے رہا ہے جس کے پاکستان کے پاس ثبوت بھی ہیں ۔
کشمیر کا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان کانٹے دار مسئلہ ہے۔ بھارت اپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے،حالانکہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے ،اقوام متحدہ نے اس پر رائے شماری کرانے کی قرارداد بھی پاس کررکھی ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے گزشتہ تنازعات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھیں گے؟
یہ بھی پڑھیں :بلاول بھٹو کی گوا میں تاجک ہم منصب سے ملاقات، باہی تعاون بڑھانے پر اتفاق
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سےبھارتی میڈیا کے سرسری جائزے نے پیغام دیا ہے کہ دلی میں فی الوقت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا ارادہ اور خواہش موجود نہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان معاشی گرداب میں گھر چکا ہے۔ اپنے ”ازلی دشمن“ کو وہ اس کی وجہ سے مزید نڈھال ہوا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ بھارت میں آئندہ برس کے مئی میں عام انتخاب ہونا ہیں۔ ہوسکتا ہے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے لئے نریندر مودی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول کے مطابق لانے کی ضرورت محسوس کریں گے۔
تمام چیلنجز ،خدشات کے باوجود دونوں اطراف میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کو اپنے تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے کے لیے بامعنی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو کا دورہ گوا(Bilawal bhutto goa visit) اس سمت میں ایک مثبت قدم ہے اور امید ہے کہ اس سے مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان مزید بامعنی روابط کی راہ ہموار ہوگی۔