(24نیوز) سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانےکے کیس کی سماعت کے دوران حکو مت نے مذاکرات کیلئے مزید وقت مانگ لیا،عدالت عظمیٰ نے تمام فریقوں کا موقف سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سبراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ تھے، سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے اپنا جواب جمع کرادیا ہے اور فاروق نائیک مذاکرات سے متعلق مزید بتائیں گے، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک متفرق درخواست بھی جمع کرائی ہے، چیئرمین سینٹ کے آفس میں مذاکرات ہوئے، چیئرمین سینٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے 5 ادوار ہوئے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو آج یہ مسائل نہ ہوتے:فاروق ایچ نائیک
فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات سے متعلق بھی پی ٹی آئی کمیٹی کو بتایا گیا، حکومتی اتحادی جماعتوں نے موجودہ ملکی معاشی صورتحال سے تحریک انصاف کو آگاہ کیا،ملک کی موجودہ خراب معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی نے بھی تسلیم کیا،حکومتی اتحادی جماعتوں نے اگست میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر رضا مندی ظاہر کی،سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ پر تاحال اتفاق نہیں ہوا،پاکستان پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ ایک ہی دن ملک میں انتخابات ہوں،سندھ اسمبلی میں مدت پوری کرنے کی قرارداد بھی منظور کی جاچکی ہے،مذاکرات کیلئے مزید وقت درکار ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو آج یہ مسائل نہ ہوتے، اگر قومی اسمبلی نہیں ہوگی تو بجٹ بھی پاس نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: 14 مئی کا فیصلہ لیکر بیٹھے نہیں رہیں گے، آئین استعمال کرسکتے ہیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا، عدالت میں ابھی مسئلہ آئینی ہے،سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے، یہ بتائیں کہ آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ حکومت کے جواب سے لگتا ہے کہ کچھ حد تک مذاکرات کامیاب ہوئے،سیاسی معاملات سیاستدانوں کو حل کرنے چاہئیں، آئی ایم ایف سے مذاکرات اور وفاقی بجٹ اس وقت بہت اہم ہیں،حکومت بیرونی قرضوں کو کہاں لگانا چاہتی ہے؟ اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے،بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے مطابق بنے گا،آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بجٹ کیلئے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے، اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکےگا، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی نہ گئی ہوتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے، اسمبلیاں توڑنے سے عدالت پر بوجھ بھی پڑ رہا ہے، افہام وتفہیم سے معاملہ طے ہوجائے تو بحرانوں سے نجات مل جائےگی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کےفیصلوں پر نظر ثانی کا بل سینیٹ سے منظور
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ سرکاری فنڈز کے ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں،چیف جسٹس نےکہا کہ اسمبلی توڑنے پربھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبار میں پڑھا کہ آئی ایم ایف کے پیکیج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے، تحریک انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا یا رد کیا ہے؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکارنہیں کرسکتا، یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پرعمل داری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پرعدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا موقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے توعدالت 14 مئی کے فیصلے کو لےکر بیٹھی نہیں رہےگی۔
اسمبلیاں تحلیل بھی کر دیں تو نومبر تک انتخابات ہونگے:خواجہ سعد رفیق
مسلم لیگ ن کے رہنماخواجہ سعد رفیق نے کہا کہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنا اہم بات ہوگی،کچھ مزید وقت مل جائے تو انشاءاللہ ضرور حل نکلے گا،اسمبلیاں تحلیل بھی کر دیں تو نومبر تک انتخابات ہونگے،سیاسی معاملات میں عدالتوں کے الجھنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں،ہماری سیاسی تاریخ زخموں سے چور چور ہے،مشرف،ضیا اور پچھلا نقاب پوش مارشل لا بھی گزر گیا تو یہ وقت بھی گزر جائے گا،ہم ایک بھی مدت سے اوپر اسمبلی نہیں چلائیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اپنے فیصلے پرعمل کرانے کیلئے آئین استعمال کرسکتے ہیں، عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے، کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا اور اس سے نقصان ہوا، اس عدالت نےہمیشہ احترام کیا اور کسی بات کا جواب نہیں دیا، جب غصہ ہو تو فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ ہی نہیں کرتے، نائیک صاحب، یہ دیکھیں یہاں کس لیول کی گفتگو ہوتی ہے اور باہرکس لیول کی ہوتی ہے، عدالت اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کو موازنہ کرکے دیکھ لیں۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عدالت کو 90 دن میں انتخابات والے معاملےکا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا، انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے، منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرےگا، یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں، یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائےگئے، آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا، اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی تو حکومت نے بائیکاٹ کر دیا، حکومتی بائیکاٹ کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا السلام وعلیکم۔
حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے:چیف جسٹس
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت نے سنجیدگی سے کیس چلایا ہی نہیں، حکومت نےکبھی فیصلہ حاصل کرنےکی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنےکا نکتہ اٹھایا تھا لیکن حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں،کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا، حکومت کی سنجیدگی یہ ہےکہ ابھی تک نظرثانی درخواست دائرنہیں کی، حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے، چھ فوجی جوان ہم نے گزشتہ روز کھو دیے، یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے، معاشی حالات کے علاوہ ہمیں آج سکیورٹی کا اہم مسئلہ درپیش ہے، اگر سیاست دانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائےگا۔
تحریک انصاف نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا:وکیل پی ٹی آئی علی ظفر
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا، ایک ہی دن انتخابات پر دونوں فریقین نے رضامندی ظاہرکی، حکومت مذاکرات کو معاملے کو طول دینے کیلئے استعمال نہ کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب کو عمل کرنا ہوگا، ہم نے مذاکرات میں کہا کہ قومی اسمبلی توڑ کر سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے، حکومتی کمیٹی نے اسمبلی توڑنے سے اتفاق نہیں کیا، سپریم کورٹ جو حکم کرے گی ہم من وعن تسلیم کریں گے، ابھی تک حکومت نے پنجاب انتخابات کے لیے فنڈز نہیں دیے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ درخواست ہم لگا رہے ہیں اٹارنی جنرل کو اس بارے میں بتادیا گیا ہے، ہماری اس کیس سے جان چھڑائیں گے تو ہم دوسرے کیس سنیں گے،اٹارنی جنرل نے رات کو درخواست تیار کی جس کو نمبر لگائے بغیر ہم سن رہے ہیں،ہم اس معاملے میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں،ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔
اگرامتحان دینا پڑا تو مولا کی جومرضی ہوگی ہمارے ساتھ وہی ہوگا: عمر عطا بندیال
چیف جسٹس نے کہا کہ جو باتیں ابھی عدالت کو بتائیں جارہی ہیں وہ لکھ کردی جا سکتی تھیں، انتخابات کیلئے فنڈز دے دیئے جاتے باقی سکیورٹی کا بتادیا جاتا، بجٹ تو مئی میں بھی پیش کئےگئے،لازمی تو نہیں کہ بجٹ 30 جون کو ہی پیش کیا جائے، ہم دیکھتے رہے ہیں کہ جون سے پہلے بجٹ پیش ہوئے، آپ نے ہمیں ازخود نوٹس لینے کا کہا، ہم ازخود نوٹس لینا ترک کرچکے ہیں،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرامتحان دینا پڑا تو مولا کی جومرضی ہوگی ہمارے ساتھ وہی ہوگا، ملک وقوم کی خاطر مسائل ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت نے مذاکرات کیلئے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا اور عدالت سے انتخابات سے متعلق کوئی ڈائریکشن نہ دینے کی بھی استدعا کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی ہوئی تو اچھی بات ہوگی،عدالت جس مسئلے کا حل کرنا چاہ رہی ہے وہ حل نہیں ہورہا ہے،تمام وکلا کا شکریہ ادا کرتے ہیں،کیس کا مناسب حکم جاری کریں گے۔
کیا اگلے دو تین روز میں کوئی حل نکل سکتا ہے؟چیف جسٹس کا شاہ محمود قریشی سے استفسار
تحریک انصاف کے رہنماشاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت میں بیٹھے لوگ تکبر کر رہے ہیں،حکومتی کمیٹی کے مذاکرات سے متعلق جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں،میری جماعت نے مجھ پر تنقید کی کہ مذاکرات کیلئے تین روز کی مہلت کیوں دی،عمران خان ناراض ہوئے کہ تین دن کیوں دیئے پوری قوم ہماری طرف دیکھ رہی ہے،حکومت نظر ثانی درخواست اگر دائر نہ کرے اور مذاکرات کامیاب نہ ہوں پھر کیا ہوگا، آئی ایم ایف سے حکومت کے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے،مالی مشکلات کا ہمیں علم ہے مگر آئی ایم ایف سے معاہدہ تعطل کا شکار ہے،پاکستان اس وقت سیاسی بحران کا شکار ہے، حکومت کی ہر بات ہم نے مانی مگر ہماری ایک بھی بات نہیں مانی گئی،ہمارے کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا ہے،وزیر قانون نے مذاکرات کے دوران 3 اور 4 کے فیصلے کی بات کی، ہمیں حیرانی اور شرمندگی ہوئی جب سپریم کورٹ پر جملے بولے گئے،تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے حکم کی پاسداری کی،حکومت کیساتھ مزید بیٹھے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا اگلے دو تین روز میں کوئی حل نکل سکتا ہے۔
بعد ازاں ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔