(24 نیوز)شہباز حکومت کا سرپرائز ،پارلیمنٹ سے دھڑا دھڑ بل منظور کرالئے۔عمران خان پھنس گئے۔مزید کیا ہونے جارہا ہے؟
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی روک تھام کیلئے حکومت انسداد دہشتگردی ایکٹ میں ترمیم کرنے جارہی ہے،اِس ترمیم کا مقصد دہشتگردوں کی کمر توڑنا ہے ،آرمی ترمیم ایکٹ کے تحت ۔ حکومت، مسلح افواج، یا سول آرمڈ فورسز، حکومتی حکم پر، کسی بھی فرد کو تین ماہ کے لیے حراست میں لے سکتے ہیں اگر کوئی معقول شبہ یا قابل اعتماد معلومات ہو جو کہ ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم میں ان کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، اور ایسی سرگرمیاں جو سپلائی یا عوامی خدمات کو خطرے میں ڈالیں۔ترمیم میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 10 پر عمل کیا جائے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ پری وینٹو ڈیٹینشن کے دوران قیدیوں کے قانونی حقوق کو برقرار رکھا جائے۔ اس میں آئینی تحفظات کے تحت اگر ضروری ہو تو تین ماہ سے زیادہ مسلسل نظربند رکھنے کی دفعات شامل ہیں۔سیکشن 2 اےکے تحت ترمیم میں کہا گیا ہے کہ یہ دفعات انسداد دہشت گردی ترمیمی ایکٹ، 2024 کے آغاز سے دو سال کی مدت تک نافذ رہیں گی، جس سے ایک مقررہ وقت کی درخواست کی اجازت دی جائے گی جس کا سیکورٹی کی صورتحال کی بنیاد پر دوبارہ جائزہ لیا جا سکتا ہے۔بل کے تحت، مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی جو مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ارکان پر مشتمل ہوں گی۔ اس کا مقصد ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف زیادہ مؤثر اور مربوط طریقے سے کام کیا جائے اور ایسی ٹیموں کی تشکیل سے نہ صرف معلومات کے تبادلے میں اضافہ ہوگا، بلکہ ایک جامع حکمت عملی کے تحت تحقیقات بھی کی جا سکیں گی۔
حکومت کا موقف ہے کہ حالیہ اقدامات دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں، اور ان کا مقصد کسی سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ ترمیم کے تحت، مشتبہ افراد کو غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، جیسا کہ دیگر ممالک میں بھی کیا جاتا ہے۔ یہ اقدام خاص طور پر گھناؤنے جرائم اور دہشت گردی میں ملوث افراد کے لیے ہے، کیونکہ دہشت گردی کے مقدمات میں سزا کی شرح کم ہونے کی وجہ سے اصلاحات کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ حکومت نے کامیاب آپریشنز کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ بین الاقوامی طریقوں کو اپناتے ہوئے تفتیش اور پراسیکیوشن میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں "ترمیم کا مقصد کسی سیاسی جماعت کو اذیت دینا یا اسے حراست میں لینا وغیرہ نہیں ہے۔" خالصتاً دہشت گردی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں اور گروہوں کا احاطہ کرتا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً ہر ملک میں گھناؤنے یا ریاست مخالف جرائم میں مشتبہ افراد کو حراست میں رکھنے کا تصور موجود ہے۔
نیشنل ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ اور پیٹریاٹ ایکٹ کے ذریعے مشتبہ شخص کو غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ترکی میں سات سال اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، مصر اور بہت سے دوسرے ممالک میں غیر معینہ مدت کے لیے نظر بندی کا طریقہ کار ہے۔قانونی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ناقص تفتیش اور استغاثہ کی وجہ سے، دہشت گردی کے مقدمات میں سزا سنانے کی شرح افسوسناک اور کم ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کی دفعات کو لاگو کرتے ہوئے، "تفتیش، استغاثہ اور عدالتی کارروائیوں میں بہترین بین الاقوامی طریقوں کو اپناتے ہوئے اہم اصلاحات اور تبدیلیاں متعارف کروائی جائیں۔دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں بالخصوص صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے پاک فوج کے جوان اپنے جانوں کے قربانیاں دے کر امن بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کمزور قوانین کی وجہ سے پکڑے جانے والے دہشت گرد انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جا رہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور ان حالات میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کا آنا خوش آئند ہے اور سب سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس پر متفقہ طور پر ووٹنگ کرتے ہوئے اسے ملکی مفاد کے پیش نظر منظور کرائیں تاکہ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔