خواجہ سراؤں کو تحفظ فراہم کرنے والا قانون خواجہ سراؤں کیلئے خوف کی علامت، کیوں؟
رپورٹ : وسیم شہزاد | واحد پی ایچ ڈی سکالر خواجہ سرا علیشہ شیرازی نے خوف کے باعث یونیورسٹی جانا چھوڑدیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو لوگوں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتا ہے ، کوئی بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرتا ہے تو کسی کے پیٹ کی بھوک سازوں کے زور پر پیروں کی تھاپ سے بجھتی ہے ، کسی کا گزارہ گرو کے دوستوں کے سبب ہوتا ہےتو کوئی بد فعلی جیسے گھناؤے دھندے کا شکار ہو کر اپنا چولہا جلاتا ہے ، ان خواجہ سراؤں کو پاکستان میں گزشتہ 75 سالوں سے کوئی خاص مقام حاصل نہیں رہا ، ان لوگوں نے اپنے حقوق کی جنگیں تو بہت لڑیں مگر 2018 میں ٹرانسجینڈر پروٹیکشن ایکٹ ان کی محنت کے ثمر کے طور پر سامنے آیا ، جس میں خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ کا حق ، تعلیم کا حق ، بنیادی ضروریات کا حق ، صحت کا حق اور معاشرے کا شہری ہونے کا حق دیا گیا، مگر اس وقت معاشرے میں یہی قانون ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے خوف کی علامت بنا ہوا ہے ، اسکی بنیادی وجہ کیا ہے؟ جو ملتان سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا علیشہ شیرازی سے پوچھا گیا۔
علیشہ شیرازی کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ ایک ٹرانس ایکٹوست ہیں اور پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کر چکی ہیں ، حال ہی میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی سے ایجوکیشن پلاننگ منیجمنٹ میں ایم فل مکمل کیا اور اب اسی جامعہ سے ایجوکیشن سے پی ایچ ڈی کی سکالر ہیں اس کے ساتھ ساتھ علیشہ شیرازی پاکستان کا پہلا ٹرانسجینڈر سکول بھی گورنمنٹ کی معاونت سے چلا رہی ہیں جس میں خود بطور استاد اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ۔
علیشہ کہتی ہیں کہ کیا ہی عجیب ہے کہ پوری دنیا ہمیں سینے سے لگا رہی ہے مگر وطن کی مٹی میں بسنے والوں سے خوفزدہ ہیں ، مزید کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کے باعث جامعہ جانا تو دور کی بات میں گھر میں بھی اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرپا رہی، کیو ں کہ ایک خوف دل میں بسا ہے کہیں لوگ ہمیں دائرہ اسلام سے باہر سمجھ کر قتل نہ کر دیں ، کیونکہ مذہبی تنظیموں کی جانب سے اس قانون کو بہتر قانون نہیں سمجھا جا رہا ۔
علیشہ شیرازی نے بتایا کہ کچھ نام نہاد لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایک ایسے پروپیگینڈا کا مجھے حصہ بنا دیا ہے جس کے باعث گردونواح میں رہنے والے لوگ بھی مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
ٹرانسجینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے حوالے سے انکا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کے اس ایکٹ میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ ایکٹ ہم جنس پرستی کو تحفظ دیتا ہے ، اس ایکٹ کا تعلق صرف خواجہ سرا برادری کے ساتھ ہے ۔
خواجہ سرا کی ٹرانسجینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 میں تعریف
اس ایکٹ میں خواجہ سرا کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں۔
۔پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوتی ہیں ، یا پیدائشی کوئی مسئلہ
۔دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں جسے نربان کہا جاتا ہے
۔تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔
چار سال قبل منظور ہونے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ ایک بار پھر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جب مذہبی جماعتوں جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس میں ترامیم تجویز کیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس کے خلاف ٹرینڈ چلائے گئے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے اس قانون کے خلاف درخواست عمران شفیق ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔ عمران شفیق ایڈووکیٹ کے مطابق انھوں نے یہ درخواست آئین پاکستان کے تحت دائر کی، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں شریعت سے متصادم کوئی بھی قانون متعارف نہیں کروایا جا سکتا۔جماعت اسلامی نے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کی کن شقوں کو چیلنج کیا ۔
یوں تو جماعت اسلامی کو باب 2 میں جنسی شناخت سے مسئلہ ہے مگر اس میں باب نمبر 2 کی شک نمبر 3 زیادہ زیر بحث ہے۔ جس کے مطابق ہر خواجہ سرا جس کی عمر 18 سال ہو اور پاکستان کا شہری ہو کو یہ حق حاصل ہو گا کے نادرا کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق متعین کردہ صنفی شناخت کو نادرا کے آرڈیننس 2000 یا متعلقہ کسی بھی قانون کے تحت شناختی کارڈ رجسٹر کروا سکتا ہے
جماعت اسلامی کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کرنے والے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سنہ 2018 میں متعارف کروائے گئے اس ایکٹ کو آئین پاکستان کی روح سے چیلنج کیا ہے۔ ہم نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو تخلیق کرنے کا حق صرف اللہ کے پاس ہے۔‘
’اللہ نے عورت اور مرد کو تخلیق کیا۔ قدرت کی تخلیق میں بڑی حکمت ہے۔ ایک عورت کو اپنی مرضی سے مرد اور ایک مرد کو عورت بننے کا کوئی اختیار نہیں۔ ایسا کرنا خلاف شرع اور بہت ہی برائیوں کا باعث بن رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی جنس تبدیلی ایک بڑے معاشرتی خرابی کا باعث بن رہی ہے، جس کو روکا جانا چاہیے اور ایسے قانون کو کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔‘ ‘
اس قانون کے حوالے سے انٹرنیشنل کمیشن آف جیوریسٹ (آئی سی جے) کی طرف سے بھی اعترضات آئے ہیں ’جبکہ پاکستان کے انتہائی اہم آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری تجویز ہے کہ جنس تبدیلی کا معاملہ میڈیکل بورڈ کی اجازت سے مشروط کیا جائے۔میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر کسی کو بھی جنس تبدیلی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف خلافِ شریعت ہے بلکہ یہ اسلام کے قانون وراثت سے بھی متصادم ہے اور خواتین کے عفت و پاک دامنی اور ہماری روایات کے بھی خلاف ہے۔‘
ان کی رائے ہے کہ ’اس پورے قانون کو از سر نو مرتب ہونا چاہیے اور قانون دان، علما، اور انٹر سیکس افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد، طبی ماہرین اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی اور سفارشات کی روشنی میں اسے تیار ہونا چاہیے۔‘
پاکستانی قانون کے اعتبار سے ہم جنس پرستوں کی کوئی گنجائش نہیں
جنرل سیکرٹری ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب بار کونسل و ایڈووکیٹ ہائی کورٹ حادی علی چھٹہ کا کہنا ہے کے پاکستانی قانون کے اعتبار سے ہم جنس پرستوں کی کوئی گنجائش نہیں مگر اس ایکٹ میں ہم جنس پرستوں کا ذکر نہیں کیا گیا، ٹرانسجینڈر پروٹیکشن ایکٹ صرف خواجہ سرا افراد کو یہ حق دیتا ہے کے وہ اپنے آپ کو نادرا یا دیگر حکومتی اداروں کےس ساتھ رجسٹر کروا سکیں۔یہ قانون اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کے ایک مرد اپنے آپ کو عورت کہلوائے اور ایک عورت اپنے آپکو مرد کہلوائے ، اور اپنے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات پر اپنی مرضی سے جنس تبدیل کروا سکے۔
خواجہ سرا افراد تحفظ حقوق ایکٹ 2018 کے 2020 میں بنائے گئے قوائد و ضوابط اور نادرا پالیسی کے تحت ایک خواجہ سرا کو "ایکس" جنس کا کارڈ دیا جاتا ہے یا اس سے پہلے موجودہ شناختی کارڈ پر مکمل تصدیق کے بعد صرف ایک بار جنس کو درست کروا کر ایکس درج کروانے کی گنجائش ہے ، پاکستان میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو ایک ایکس جنس والے شناختی کارڈ کے حامل شخص کو شادی کی اجازت دے ، اسی طرح نادرا کی پالیسی کے مطابق کوئی شخص جسکی شادی ہو چکی ہے وہ ایکس کارڈ حاصل نہیں کر سکتا۔
ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 میں کہیں نہیں لکھا کے خواجہ سرا شادی کر سکتا ہے
نایاب علی خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور مذکورہ قانون کے حوالے سے مہم چلانے والوں میں بھی شامل ہیں ،انکا کہنا ہے کے ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 میں کہیں نہیں لکھا کے خواجہ سرا شادی کر سکتا ہے۔
، نہ ہی یہ ذکر ہے کہ کوئی مرد اپنے آپ کو عورت اور کوئی عورت اپنے آپ کو مرد رجسٹر کروا سکتی ہے ، ہاں اتنی شناخت ضرور دیتا ہے کے وہ خواجہ سرا اپنے آپ کو تیسری جنس رجسٹر کرا سکتے ہیں جو کے انکا بنیادی حق ہے ، اور تیسری جنس تو شادی ویسے بھی نہیں کر سکتی ، تو یہ بات ثابت ہوئی کے ہم جنس پرستی سے تو اس قانون کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، یہ ایکٹ تو صرف بنیادی حقوق کی ضمانت دے رہا ہے ، یہ صرف سیاسی ایجنڈا ہے جو پولیٹیکل ووٹ سکورنگ کے لیے کیا جا رہا ہے ۔
اسی تناظر میں نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ پاکستان بھر میں خواجہ سرائؤں مقامی اسٹیشنز پر اپنے تحفط کی درخواستیں جمع کرا دیں ، اگر جنوبی پنجاب کی بات کی جائے تو ترجمان ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب کے مطابق جنوبی پنجاب بھر سے 1300سے زائد خواجہ سراؤں کی تحفظ کے لیے درخواستیں موصول ہوئیں ،انکا مزید کہنا تھاکے مقامی پولیس خواجہ سراؤں کو مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے ۔
علیشہ شیرازی کا کہنا ہے کے کسی مرد کا دل نہیں کرتا کے وہ لڑکیوں کا لباس زیب تن کرے نہ کسی مرد کا دل کرتا ہے تو یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے نادرا میں درخواستیں جمع کرا دیں ؟ حکومت ان لوگوں کا جائزہ لے اور اگر ایسے لوگ موجود ہیں تو انہیں سامنے لایا جائے نہ کہ یہ پروپیگنڈا کے تحت پروان چڑھتے بے معنی چیزوں کو فروغ دے کر خواجہ سراؤں کی آواز کو مزید دبایا جائے ، وگرنہ یہ خواجہ سرا اس معاشرے پر بوجھ بن جائیں گے اور پھر وہی رقص کی محفلیں اور تھاپ اور بھیک ان کا مقدر بن جائے گی ۔